دنیا میں بعض لوگ اپنی عجیب وغریب عادات اور واطوار کے باعث تاریخ ہمیشہ یاد رکھے جاتے ہیں۔ ایسی ہی مجموعہ اضداد شخصیات میں تھائی لینڈ کے بادشاہ آنجہانی پومی پون ادونیادچ بھی ہیں جو اب اس دنیا میں نہیں رہے مگر ان کی زندگی کے بعض واقعات بالخصوص ’کتوں کے پجاری‘ کے طور پر انہیں یاد رکھا جائے گا۔
بادشاہ بھومی بول پانچ دسمبر سنہ 1927 کو امریکی ریاست میساچوسٹس کے شہر کیمبریج میں پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش کے وقت ان کے والد شہزادہ ماہی دول ادولیادیج امریکی یونیورسٹی ہارورڈ میں زیرِ تعلیم تھے۔
بعد میں بادشاہ بھومی بول کا خاندان وطن واپس آ گیا جہاں اس وقت ان کے والد کا انتقال ہو گیا جب ان کی عمر صرف دو برس تھی۔ والد کے انتقال کے بعد ان کی والدہ سوئٹزرلینڈ منتقل ہو گئیں اور نوجوان شہزادے نے وہیں تعلیم حاصل کی۔ نوجوانی میں وہ فوٹوگرافی، شاعری، موسیقی اور سیکسو فون، مصوری اور لکھنے جیسی ادبی اور تہذیبی مشاغل کے شوقین تھے۔
وہ گذشتہ روز 89 سال کی عمر میں انتقال کرگئے۔ ان کی جگہ تھائی لینڈ کی بادشاہت کا تاج ان کے بیٹے اور ولی عہد 64 سالہ فاگیراالونجکورون کے سرپر سجایا جائے گا۔
العربیہ ڈاٹ نیٹ نے چند ماہ قبل ایک رپورٹ میں تھائی لینڈ کے بادشاہ کی بیماری کی خبر کے بعد ان کے بارے میں تفصیلات جاری کی تھیں۔ 26 دسمبر 2015ء کو بادشاہ سلامت کی ’ہردلعزیز کتیہ‘ جسے بادشاہ اپنی سب سے قیمتی متاع سمجھتے تھے مرگئی تو گویا کتیہ کا مرنے کی خبر بادشاہ پر پہاڑ بن کر گری۔ اس کے بعد خود بادشاہ کی اپنی صحت بھی مسلسل گرتی چلی گئی اور آخر کار کتیہ کا دکھ انہیں بھی لے ڈوبا۔
شاہ ادونیا دج کی محبوب کتیہ کا نام تو Tongdaeng تھا مگر کسی کو اس کا نام لے کر پکارنے کی اجازت نہیں تھی۔ حکم تھا کہ کتیہ کو ’مسز‘ یا صاحبہ کہہ کر لکھا اور پکارا جائے۔ شاید یہ معاصر تاریخ کا سب سے انوکھا واقعہ ہے۔
بادشاہ ادونیا دچ کی اپنی عمر 89 برس تھی مگر اس عمر میں 70 سال اور 6 ماہ وہ تھائی لینڈ کے بادشاہ رہے۔ اگرچہ تھائی لینڈ میں بادشاہت محض ایک نمائشی ادارہ رہ گیا ہے مگر اب بھی کسی حد تک ملک میں اس ادارے کو استحکام اور احترام کا درجہ حاصل ہے۔
مشاہیر صاحب ثروت پر نظر رکھنے والے جریدہ ’فوربز‘ نے انہیں دنیا کے امیر ترین بادشاہوں میں شامل کیا۔ وہ چونکہ 19 سال کی عمر میں 1946ء میں شاہی تخت پر براجمان ہوئے تھے اس لیے اس کے بعد دولت سمیٹنے کے ان کے پاس بے شمار مواقع آئے اور انہوں نے ان مواقع سے بھرپور فائدہ بھی اٹھایا۔ سنہ 2014ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ میں انہیں دنیا کا امیر ترین بادشاہ قرار دیا گیا اور ان کی دولت کا اندازہ30 ارب ڈالر لگایا گیا تھا۔ بنکاک میں ان کی ذاتی 3493 فدان اراضی تھی، کئی سیمنٹ کمپنیاں، انشورینس ادارے، بنک اور دیگر کاروبار مگر ان کے لیے اگر کوئی قیمتی متاع تھی تو وہ ان کہ ’’تونگدائنگ‘‘ نامی کتیا تھی جو انہیں دنیا و مافیھا سے سب عزیز تھی۔
کتوں سے محبت!
تھائی لینڈ کے آنجہانی بادشاہ پومی پون ادونیادچ کی کتوں سے بے پناہ محبت کی مثال اور کہیں نہیں ملے گی۔ پچھلے سال جب ان کی ہردلعزیز کتیا مرگئی تو تین دن تک ملک میں سوگ منایا گیا اور مرنے والی کتیہ کی سرکاری سطح پر تین دن تک تقریبات جاری رہیں۔
بادشاہ سلامت نے سنہ 2002ء میں اپنی پسندیدہ کتیا کے آداب واحترام کے حوالے سے ایک کتاب تالیف کی جسے بعد ازاں The Story of Tangdaeng کے عنوان سے انگریزی میں ترجمہ کیا گیا۔ کئی سال تک یہ کتاب بیسٹ سیلر رہی۔ اس کتاب میں بادشاہ نے بتایا کہ ان کی کتیا کا احترام کیسے کیا جائے اور کتیا کے لیے کیا کیا القابات اپنائے جائیں۔ اس حوالے سے ایک کارٹون فلم بھی جاری کی گئی تھی۔ کتاب اور اس فلم میں کتیا کو ’تانبا‘ بھی کہا گیا۔ بادشاہ نے حکم دے رکھا تھا کہ کتیا کی شان میں گستاخی کے مرتکب کو کڑی سزا دی جائے۔ ایک شخص نے کتیا کے مرنے پر ملک بھر میں تین روزہ سوگ پر حیرت کا اظہار کرتے ہوئے اس پر تنقید کی تو اسے عدالت کی طرف سے 37 سال قید کی سزا سنائی گئی۔
سترہ سالہ کتیا جب بیمار پڑی تو تین ماہر ویٹرنری ڈاکٹروں کی خدمات حاصل کی گئیں۔
صرف یہی نہیں باپ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے فوت ہونے والے بادشاہ کے صاحبزادے اور ولی عہد نے بھی ایک کتا پال رکھا ہے جس کا نام ’’فوفو‘‘ لیا جاتا ہے۔ شہزادہ Maha Vajiralongkorn کے کتے کو کو سنہ 2007ء میں فوج میں مارشل کے عہدے پر ترقی دی گئی۔
غالب امکان یہی وہے کہ تھائی لینڈ کے نئے بادشاہ بھی کتوں سے محبت کی میراث کو قائم ودائم رکھیں گے اور ان کے کتے کو بھی شاہی دربار میں ان کے برابر کا مقام ملے گا اور عوام الناس کو کتوں کے سامنے سجدہ ریز ہونے کی تاکید مزید بھی کی جائے گی۔