ادب اور لکھنوی تہذیب کی نمائندگی کیلئے بس اب دانش محل ہی رہ گیاہے۔ ’شام اودھ‘ کی رونق بھلے ہی پھیکی بڑچکی ہو، لیکن دانش محل میں ہونے والی ’شام اودھ‘ کی میٹنگ آج بھی حسب سابق جاری ہے۔ لوگ اسے ’گھر سے دور ایک گھر‘ قرار دیتے ہیں۔ دانش محل کو کتابوں کا ’تاج محل‘ اور دانشوروں کا ’خواب محل ‘کہاجائے تو شاید بیجانہ ہوگا۔
شہر نگاراں میں دانش محل کا قیام 1942میں عمل میں آیا۔ اس کے قیام کا تاریخی پس منظر یہ ہے کہ بابائے اردو مولوی عبد الحق ، علامہ سیدسلیمان ندوی اور دیگر سر کردہ شخصیات کی یہ خواہش تھی کہ لکھنؤ میں کسی مرکزی جگہ پر ایک ایسا کتاب گھر ہو جہاں ادبی وعلمی کتابیں دستیاب ہوسکیں۔ اس کے ساتھ ساتھ ادباء شعراء ، صحافی اور دانشور آکر بیٹھ سکیں۔