اس سے زیادہ تعجب کی بات یہ ہے کہ یہاں آنے والے لوگوں میں سے کسی بھی شخص کے منھ سے کبھی نسیم صاحب کی برائی نہیں سنی گئی۔ بلکہ ہر شخص ان کی تعریف میںرطب اللسان نظر آتاہے۔ اس سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتاہے کہ وہ کتنی خوبیوں کے مالک تھے۔ نسیم صاحب کی ایمانداری اور سادگی کولوگ آج بھی یادکرتے ہیں۔
نسیم صاحب خود بھی ادیب تھے لیکن اس کا اظہار کبھی نہیں کرتے تھے۔ ان کے کئی مضامین رسائل وجرائد میں شائع ہوئے اور متعد دتقاریر ریڈیوسے نشر ہوئیں۔ پروفیسر احتشام حسین پر نسیم صاحب کا مضمون کافی پسند کیا گیا اور موقر رسائل وجرائد میں شائع ہوا۔ وہ مولوی گنج پر ایک کتاب لکھ رہے تھے لیکن علالت کے سبب یہ کام مکمل نہ ہوسکا۔