ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان 5 سال سے تعطل کا شکار سفارتی تعلقات بحال کرکے فلسطینیوں کی امیدوں پرنا صرف پانی پھیردیا بلکہ ان کی پشت میں خنجر بھی گھونپ دیا ہے ۔
مہر خبررساں ایجنسی کی اردو سروس کی رپورٹ کے ترکی کے صدر رجب طیب اردوغان نے ترکی اور اسرائیل کے درمیان 5 سال سے تعطل کا شکار سفارتی تعلقات بحال کرکے فلسطینیوں کی امیدوں پر پنا صرف پانی پھیردیا بلکہ ان کی پشت میں خنجر بھی گھونپ دیا ہے ۔ترکی نے امدادی کشتی پر حملے کے سلسلے میں اسرائیل سے دو کروڑ ڈالر بھی وصول کئے ہیں۔ ترکی کے صدر اردوغان نے اس سے قبل کہا تھا کہ جب تک وہ ترکی میں برسر اقتدار ہیں تب تک وہ اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کریں گے لیکن اسرائیل کے خلاف ترک صدر کی کھوکھلی دھمکیاں بہت جلد ہی دم توڑ گئیں اور ترکی نے ایک تیسرے ملک میں اسرائیل کے ساتھ بہت عرصہ پہلے خفیہ مذاکرات کا آغاز کردیا تھا جس کے بعد دونوں ممالک نے سفارتی تعلقات برقرار کرنے پر اتفاق کرلیا گیا ہے،
تجزيہ نگاروں کے مطابق ترک صدر نے پہلے فلسطینیوں کو امید دلائی کہ وہ انھیں ان کا حقوق دلائیں گے اور غزہ کا محاصرہ ختم کرائیں گے لیکن اسرائيل کے ساتھ معاہدہ کرکے ترک صدر اردوغان نے نا صرف فلسطینیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا بلکہ ان کی پشت میں زہر آلود خنجر بھی گھونپ دیا ہے اور غزہ کا محاصرہ جوں کا توں باقی ۔ واضح رہے کہ ترکی اور اسرائیل کے درمیان 2010 میں اس وقت سفارتی تعلقات ختم ہوگئے تھے جب ترکی نے اسرائیل کی جانب سے محصور فلسطینی علاقے غزہ کی پٹی کے عوام کے لیے امدادی سامان سے لدے بحری جہاز روانہ کیے جس پر اسرائیل نے حملہ کر کے 10 ترک رضا کاروں کو ہلاک اور 50 سے زائد کو زخمی کردیا تھا۔ ترکی اندرونی اور بیرونی بہت سی مشکلات میں پھنسا ہوا ہے جس کے بعد اس نے اسرائیل اور روس کے دامن میں پناہ لینے میں ہی اپنی عافیت سمجھی ہے ترک صدر نے روسی صدر سے بھی روس کا طیارہ مار گرانے پر معافی مانگ لی ہے جبکہ وہ اس سے قبل کہتے رہے ہیں کہ وہ روس سے معافی نہیں مانگیں گے اس پر روس نے ترکی کے خلاف اقتصادی پابندیاں عائد کردی تھیں۔ لیکن اب ترک صدرنے روس کے سامنے بھی گھٹنے ٹیک کر ثابت کردیا ہے کہ ان کے کھوکھلے بیانات کی کوئی وقعت اور حیثیت نہیں ہے۔