نئی دہلی: ہندوتوا کے معاملہ پر سپریم کورٹ نے چھ دنوں تک جاری رہنے والی طویل سماعت کے بعد آج فیصلہ محفوظ کر لیا۔ چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی صدارت والی سات رکنی آئینی بنچ نے طویل سماعت کے دوران اس معاملے میں تمام فریقوں کی دلیلیں تفصیل سے سنیں ۔ سماعت کے دوران آئینی بنچ نے عوامی نمائندگی قانون کی دفعہ 123 (3) اور 123 (3) (اے) کے قانونی جواز پر مختلف فریقوں کی دلیلیں سنيں۔ ان دفعات میں انتخابی فائدے کے لئے مذہب، ذات، برادری، زبان وغیرہ کے استعمال کو نازیبا رویہ قرار دیاگیا ہے۔ اگر کوئی امیدوار ایسی حرکت کرتا ہے تو اس کا انتخاب منسوخ کرنے کی تجویز ہے۔ سماعت کے اختتام پر عدالت نے ایک بار پھر واضح کیا کہ وہ ہندوتو اکے سلسلے میں 1995 کے اپنے فیصلے کی تشریح نہیں کر رہی ہے۔
سال 1995 میں عدالت کی تین رکنی بنچ نے ‘ہندوتوا کو طرز زندگی بتایا تھا۔ عدالت نے کہا تھا کہ ‘ہندوتوا کے نام پر ووٹ مانگنے کو ہندو مذہب کے نام پر ووٹ مانگنا نہیں مانا جا سکتا۔ اس تشریح کی وجہ سے مہاراشٹر کے سابق وزیر اعلی منوہر جوشی سمیت شیوسینا اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے کئی ممبران اسمبلی کی رکنیت منسوخ ہونے سے بچ گئی تھی۔ اس سے پہلے آج سماعت کے دوران مارکسی کمیونسٹ پارٹی (سی پی ایم) اس معاملے میں فریق بنی۔ وہ پہلی پارٹی ہے، جس نے اس معاملے میں مداخلت کی ہے۔ سی پی ایم کی جانب سے پیش ہوئے سینئر وکیل سنجے ہیگڑے نے مذہب کو انتخابات سے دور رکھنے دلیل دی ۔