ڈاکر۔ سینیگال کی فوج کو گیمبیا کی سرحد کی طرف بڑھتے ہوئے دیکھا گیا ہے جس کا مقصد گیمبیا کے صدر یحییٰ جامع کو اقتدار چھوڑنے پر مجبور کرنا ہے۔ سینیگال اس کارروائی قیادت کر رہا ہے جس میں اسے نائجیریا اور خطے کے دوسرے ملکوں کی حمایت حاصل ہے۔
سینیگال نے انھیں اپنا عہدہ چھوڑنے کے لیے گرینچ ٹائم کے مطابق رات 12 بجے کی مہلت دی تھی، جب کہ نائجیریا نے بھی سینیگال کی گیمبیا کے خلاف ممکنہ جنگ کی حمایت میں اپنی فضائیہ کا ایک دستہ بھیجا ہے۔ صدر جامع کو بدھ تک صدارت کی کرسی چھوڑنا تھی لیکن پارلیمان نے انھیں مزید تین ماہ اس عہدے پر برقرار رہنے کی اجازت دے دی ہے۔ اس کے باعث جمعرات کو ان کے جانشین آداما بیرو نئے صدر کی حیثیت سے حلف نہیں اٹھا سکیں گے۔ اس ہفتے گیمبیا کے کم از 26 ہزار شہری تشدد بھڑک اٹھنے کے خدشے کے پیشِ نظر سینیگال منتقل ہو گئے ہیں۔
یکم دسمبر کو ہونے والے انتخابات میں بیرو کی حیران کن فتح کے بعد سے گیمبیا بحران کی زد میں ہے۔ بیرو اس وقت سینیگال میں ہیں۔ مغربی افریقی ملک اقوامِ متحدہ کی پشت پناہی چاہتے ہیں تاکہ گیمبیا میں فوجیں بھیج کر صدر جامع کو زبردستی اقتدار سے الگ کیا جائے۔ وہ 1994 میں ہونے والی بغاوت کے بعد سے ملک پر حکمرانی کر رہے ہیں۔ اسی دوران ہزاروں برطانوی اور ولندیزی سیاحوں کو گیمبیا سے نکالا جا رہا ہے۔ مغربی افریقہ کا یہ ملک اپنے دلکش ساحلوں کی وجہ سے یورپی سیاحوں میں خاصا مقبول ہے۔ اسے ننھے سے ملک کو تین طرف سے سینیگال نے گھیر رکھا ہے۔
سینیگال کیوں دخل دے رہا ہے؟
مغربی افریقی ملکوں کی معاشی تعاون کی تنظیم ایکوواس نے سینیگال کو گیمبیا کے خلاف فوجی کارروائی کا مینڈیٹ دیا ہے، تاہم شرط یہ ہے کہ اسے آخری حربے کے طور پر استعمال کیا جائے اور اس کے لیے اقوامِ متحدہ سے منظوری لی جائے۔
بی بی سی کے افریقہ کے لیے سکیورٹی نامہ نگار ٹومی اولاڈیپو کہتے ہیں کہ گیمبیا کی کل فوج صرف ڈھائی ہزار سپاہیوں پر مشتمل ہے اس لیے یہ تصور کرنا محال ہے کہ وہ سینیگال کا مقابلہ کر سکے۔
صدر یحییٰ جامع کہتے ہیں کہ انتخابی عمل میں بےضابطگیاں ہوئی تھیں، جن میں ان کے بعض ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک نہ پہنچنے دینا اور الیکشن کمیشن کی جانب سے کی جانے والی غلطیاں شامل ہیں۔ ان کے مطابق وہ نئے انتخابات تک صدر رہیں گے۔ امریکہ محکمۂ خارجہ نے جمعرات کو صدر جامع پر زور دیا ہے کہ وہ پرامن طریقے سے اقتدار نومنتخب صدر آداما بیرو کو منتقل کر دیں۔ ترجمان جان کربی نے کہا: ‘اس سے گیمبیا کے عوام بحران سے بچ جائیں گے۔’