آئین میں ترمیم کرکے نکالا جاسکتا ہے حل
لکھنؤ۔ مسلم طبقے کی پسماندگی دور کرنے کا واحد راستہ ریزرویشن ہے اور ریزرویشن کا مطالبہ غیر آئینی نہیں ہے۔ یہ کہنا ہے مسلم دانشوروں اور ماہرین قانون کا۔ ان کا ماننا ہے کہ سرکاریں اگر چا ہیں تو آئین میں ترمیم کرکے بھی مسئلے کا حل نکالا جا سکتا ہے۔ مولانا خالد رشید فرنگی محلی کا کہنا ہے کہ مسلم ریزرویشن کی بات تو تقریباً سبھی سیکولر پارٹیاں کرتی رہی ہیں ۔ مگر عملی طور پرمضبوط قدم کسی پارٹی نے نہیں اٹھایا۔
انہوں نے کہا کہ اترپردیش کی سماجوادی پارٹی نے بھی اپنے گذشتہ انتخابی منشور میں آبادی کے تناسب سے مسلم ریزرویشن کی بات کہی تھی مگرعمل آج تک نہیں ہوا۔ ماہرین قانون کے مطابق جب 50 فیصد تک ریزرویشن اس ملک میں دیگر قوموں کو ملا ہوا ہے تو مسلمانوں کو ملنے میں کوئی آئینی دشواری نہیں ہونی چاہئے۔
مسلم ریزرویشن کا مطالبہ غیرآئینی نہیں، آئین میں ترمیم کرکے نکالا جاسکتا ہے حل : مسلم دانشور
ماہر قانون اور آئین کے جانکار پروفیسر شکیل صمدانی یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ جب دیگر مذاہب کے دلتوں کو ریزرویشن دیا گیا ہے تو مسلم اور عیسائی دلتوں کو اس سے دور کیوں رکھا گیا ہے ؟ مسلم دانشوروں کا یہ بھی کہنا ہے کہ آرٹیکل 341 کے تحت مذہب کے نام پر یہ امتیاز مناسب نہیں ۔ وہیں ان کا یہ موقف بھی ہے کہ اگر آئینی اعتبار سے کوئی دشواری ہےتو آئین میں ترمیم کرکے بھی راستہ نکالا جا سکتا ہے۔
یہ بات سچ ہے کہ دبے کچلے افراد کی پسماندگی دور کرنے کا آسان طریقہ ریزرویشن ہے اور مسلمانوں کا شمار اسی پسماندہ زمرے میں ہوتا ہے۔ جن قوموں کو ریزرویشن حاصل ہوا ہے وہ سماجی اور اقتصادی اعتبار سے فرش سے عرش پر پہنچ چکے ہیں۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلمانوں کی سماجی و اقتصادی پسماندگی دور کرنے کے لئے آئینی اور سیاسی چارہ جوئی کی جائے۔