ان کی ذات بلاشبہ کئی نادر خوبیوں کا مرکب تھی، غیر معمولی ذہانت کے باوجود اس میں گھمنڈ یا غرور نام کی کوئی چیز نہ تھی، وہ ایک دردمند دل رکھنے والا غم گسار شخص تھے، جو سائنس کے علاوہ سیاسی امور پر بھی بے لاگ تبصرہ کیے کرتے تھے، اسی وجہ سے ہٹلر کے جرمنی میں بر سر اقتدار آتے ہی ان کا ادارہ بھی زیر عتاب آگیا، جس کے بعد 1933ء میں وہ پرنسٹن انسٹی ٹیوٹ آف ایڈوانسڈ اسٹڈیز نیو جرسی منتقل ہوگئے، جہاں بعد ازاں 1940ء میں انہیں امریکی شہریت بھی حاصل ہوگئی۔
آئن اسٹائن کو امریکا کے ایٹمی پروگرام کے حوالے سے ایک متنازع شخصیت سمجھا جاتا ہے، اگرچہ وہ ایٹمی توانائی کے پرامن استعمال کا زبردست حامی تھے اور مستقبل میں اس سے ہونے والی ہولناکیوں کو قبل از وقت بھانپتے ہوئے البرٹ نے اس وقت کے امریکی صدر روز ویلٹ کو خط بھی لکھا جو اب تک ریکارڈ پر موجود ہے، مگر آئن اسٹائن کو ایٹم بم پراجیکٹ میں اس لیے ملوث کیا جاتا رہا کیونکہ ایک تو یہ ان کا اپنا شروع کیا گیا منصوبہ تھا، دوسرا یہ کہ تھیوریٹیکلی بم کی تخلیق آئن اسٹائن کی مشہو ر زمانہ ‘کمیت اور توانائی کی مساوات کے ذریعے ہی ممکن ہوسکی تھی۔
آئن اسٹائن جس شان اور وقار سے زندہ رہے، مرنے کے لیے بھی انہوں نے ویسا ہی باعزت طریقہ اختیار کیا، 17 اپریل 1955 کو انہیں سینے میں تکلیف کے باعث ہسپتال داخل کیا گیا اور ڈاکٹرز ان کی سرجری کے لیے پوری طرح مستعد تھے، مگر انہوں نے یہ کہہ کر سرجری کروانے سے انکار کردیا کہ وہ اپنی زندگی جی چکے ہیں اور اب آسودگی اور رضامندی کے ساتھ اس دنیا سے رخصت ہوجانا چاہتے ہیں، اگلے ہی روز 18 اپریل کو یہ نامور سائنسدان دنیا سے اس حالت میں رخصت ہوا کہ اُن کی رائٹنگ ٹیبل پر بے شمار لکھے اور ادھ لکھے کاغذات کا ڈھیر تھا، جن پر وہ آخری سانس تک کوانٹم فزکس کی مساواتیں لکھ کر کائنات کے عقدے حل کرتا رہا۔