بول کر سوچنے کے علاوہ اپنے خیالات کو وہ تصویر کی صورت میں بھی سوچا کرتا تھے، جس میں آسمانی بجلی کا چلتی ہوئی ٹرین سے ٹکراؤ اور نیچے کی جانب آتی ہوئی متحرک لفٹ سے گریویٹی اور فری فال کے تجربے کافی مشہور ہوئے۔
آئن اسٹائن کو ریاضی میں غیر معمولی صلاحیتیں اپنے والد سے ورثے میں ملی تھیں، وہ سلیبس میں درج اور اساتذہ کی پڑھائی کو حرفِ آخر سمجھنے والوں میں سے نہ تھا، ریاضی کی مساواتیں (Equations) اور جیومیٹری کی اشکال انہیں کائنات کے مخفی رازوں پر غور و فکر کرنے پر اکساتی تھیں، جسے اساتذہ عموماً کلاس میں غائب دماغی سمجھ کر ان کے والدین کو شکایت بھیج دیا کرتے تھے، مگر وہ انہیں قائل کرنے سے قاصر تھے کہ وہ محض ڈگری کے حصول سے آگے بڑھ کر کچھ غیرمعمولی کر دکھانے کا خواہش مند ہیں۔
صرف 15 برس کی عمر میں ریاضی کے پیچیدہ اصولوں اور کیلکولس میں مکمل مہارت حاصل کرنے کے بعد آئن اسٹائن کا دل اسکول، لگی بندھی روٹین اور فرسودہ سلیبس سے اُکتا چکا تھا، لہٰذا 1896ء میں وہ اپنی جرمن شہریت کو ترک کرکے زیورخ چلے گئے اور17 برس کی عمر میں ‘سوئس فیڈرل پولی ٹیکنک انسٹی ٹیوٹ میں داخلہ لیا، جہاں انہوں نے اسپیشلائزیشن کے لیے فزکس اور ریاضی کے مضامین کا انتخاب کیا، لیکن وہ ساری زندگی اس امر کے شدید مخالف رہے کہ خالص طبیعات کی تھیوریز کو ریاضی کے اصولوں کے ساتھ نتھی کیا جائے، آئن اسٹائن کا استدلال تھا کہ ایک کامیاب ماہر طبیعات کے لیے محض بنیادی ریاضی سے آگاہ ہونا ہی کافی ہے۔
آئن اسٹائن کی ذاتی زندگی ہمیشہ سے ہل چل کا شکار رہی، اُن کے والد اکثر ان سے ناراض رہتے تھے اور والدہ ان دونوں کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کی جتنی کوششیں کرتیں وہ اتنی ہی بڑھتی چلی جاتی، اس مشکل وقت میں ان کی چھوٹی بہن کے علاوہ ان کی دوست ‘میری ‘نے ان کا بھرپور ساتھ دیا، جس کے ساتھ زیورخ انسٹی ٹیوٹ میں تعلیم حاصل کرنے کے دوران بھی خط و کتابت کے ذریعے رابطہ رہا، مگر اس تعلق میں اس وقت دراڑ آگئی جب آئن اسٹائن کی دلچسپی اپنی فزکس کی کلاس میں زیر تعلیم واحد طالبہ میلیوا میرک میں بڑھنے لگی۔