اسلام آباد: انسداد دہشتگردی سے متعلق اہم قانون کی معیاد گزشتہ ماہ ختم ہونے کے بعد وزیر داخلہ پنجاب ریٹائرڈ کرنل شجاع خانزادہ کے قتل سمیت دیگر اہم کیسز پر پیش رفت غیر یقینی صورتحال سے دوچار ہوگئی۔تحفظ پاکستان ایکٹ جولائی 2014 میں دو برس کیلئے نافذ کیا گیا تھا اور اس کی مدت 15 جولائی 2016 کو ختم ہوگئی، اس قانون کے تحت قائم ہونے والی خصوصی عدالتیں بھی عملے اور دیگر سہولتوں کی کمی کی وجہ سے کئی مہینوں سے غیر فعال ہے۔ لیکن ایسا ظاہر ہوتا ہے کہ اب تک پاکستان مسلم لیگ ن (پی ایم ایل این) کی حکومت نے اس قانون کی تجدید کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کیا جو زیادہ تر دہشتگردی سے متعلق جرائم سے نمٹنے کیلئے بنایا گیا تھا۔
وزارت قانون نے تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع کیلئے دو ماہ قبل سمری وزیر اعظم کو ارسال کی تھی لیکن وزیراعظم کے پاس اس پر غور کا وقت نہیں تھا کیوں کہ اس وقت وہ اپنے دل کی سرجری کیلئے ملک سے باہر تھے۔ وکلاء دفاع کا دعویٰ ہے کہ اگر تحفظ پاکستان ایکٹ میں توسیع نہ ہوئی تو اس قانون کے تحت مقدمے کا سامنا کرنے والے ملزمان کو رہنا کرنا پڑے گا جبکہ پروسیکیوٹرز کا کہنا ہے کہ ملزمان کے خلاف تعزیرات پاکستان(پی پی سی) اور انسداد دہشتگردی ایکٹ (اے ٹی اے) کے تحت کارروائی ہوسکتی ہے۔