لندن۔ سید علی خامنہ ای جو ایران کے مرشد اعلی نے اپنے ایک خطاب میں کہا کہ مزاحمت کاروں کے لیے ہماری سپورٹ سے متعلق امریکی عہدے دار (جان کیری) کا بیان درحقیقت وہ ہی بات ہے جس کا میں متعدد بار اپنے عہدے داران سے ذکر کر چکا ہوں۔ امریکی جریدے “فارن افیئرز” میں شائع ہونے والے انٹرویو میں امریکی وزیر خارجہ جان کیری نے کہا تھا کہ یمن میں تہران کی پالیسیاں اور شامی حکومت ، بشار الاسد اور حزب اللہ کے لیے اس کی سپورٹ.. تہران کے ساتھ نیوکلیئر معاہدے کے بعد ایرانی بینکوں کے لیے امریکی مدد کی کارروائی کو پیچیدہ بنا رہی ہے۔ ایک ہفتے سے بھی کم مدت میں یہ دوسری مرتبہ ہے کہ ایرانی حکام نے شام اور یمن میں ایران کی مداخلت اور نیوکلیئر معاہدے کی شقوں پر اس کے رسوخ کے سے متعلق امریکی وزیر خارجہ جان کیری کے بیان پر شدید جھنجھلاہٹ کا اظہار کیا ہے۔
سید علی خامنہ ای نے نام لیے بغیر امریکی وزیر خارجہ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ :”اس بیان کے بعد بھی کیا آپ کی طرف سے پر امید رہنے کا کوئی امکان ہے ؟”
ایرانی مرشد اعلی سید علی خامنہ ای نے مزید کہا کہ “ میں ہمیشہ سے ملک کے ذمہ داران سے یہ بات کہتا رہا ہوں کہ اگر تم لوگ نیوکلیئر معاملے میں پیچھے ہٹو گے تو وہ میزائلوں کا معاملہ لے آئیں گے۔ اگر اس میں پیچھے آؤ گے تو پھر وہ تم سے مزاحمت کاروں (ملیشیاؤں) کی سپورٹ سے ہاتھ کھینچنے کا مطالبہ کریں گے۔ اگر وہ بھی مان لو گے تو پھر وہ انسانی حقوق کے معاملے کو اٹھائیں گے اور اگر تم نے ان کے معیارات کو قبول کر لیا تو پھر وہ تم سے تمہارے مذہبی معیارات کو ختم کرنے کے مطالبے تک پہنچ جائیں گے”.
ایران کے حوالے سے بہت سے تجزیہ کاروں کے نزدیک خامنہ ای نے چھ بڑے ممالک کے ساتھ نیوکلیئر مذاکرات کے نتائج کو تسلیم ہی نہیں کیا تھا تاہم بین الاقوامی پابندیوں کے سبب ایرانی معیشت کے کمزور ہوجانے اور ایرانی کرنسی کے ایک ہفتے کے دوران غیر مسبوق صورت میں گر جانے کے بعد خامنہ ای صورت حال کی نزاکت سمجھنے پر مجبور ہوئے۔
اسے سے قبل سید علی خامنہ ای جان کیری کے ایک بیان کے جواب میں یہ کہہ چکے ہیں کہ تہران نے نیوکلیئر مذاکرات کے دوران تمام فریقوں کو آگاہ کر دیا تھا کہ قومی سلامتی اور میزائل دفاعی نظام کی پالیسی سے متعلق امور ، ایران کی علاقائی پالیسیوں سے متعلق معاملات اور اسلامی جمہوریہ کی خارجہ پالیسی کے بنیادی اصول.. ان میں سے کسی پر مذاکرات نہیں ہو سکتے۔۔