کرناٹک کا تعلیمی ہب کہے جانے والے شہرگلبرگہ میں آزادی کی طویل جدوجہدکے دوران مسلمانوں کے رول اور علماء کے قائدانہ کردار پر جمعیۃ علمائے کرناٹک کے عظیم الشان اجلاس میں اظہارِخیال کرتے ہوئے ممتازعالم دین و ممبرپارلیمنٹ مولانا اسرارالحق قاسمی نے کہاکہ ہندوستان کی جنگ آزادی میں عام طبقات نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ تاہم مسلمانوں نے جدوجہد آزادی کے ہر محاذپرجس جذبہ اور ولولہ کے ساتھ شرکت کی اس کی مثال نہیں ملتی۔انھوں نے1757ء سے1947ء تک کئی محاذوں پر انگریزوں کے پاؤں اکھاڑڈالے۔حقیقت یہ ہے کہ ملک کا ایسا کوئی گوشہ نہیں جہاں مسلمانوں نے اپنی قربانیوں اور علماء نے اپنے قائدانہ کردار کا نقش نہ چھوڑاہو۔
مولاناقاسمی نے اپنے صدارتی خطا ب میں فرمایاکہ عدم تشدد امن ،رواداری ہندوستان کاقومی نظریہ ہے،کثرت میں وحدت،مشترکہ ثقافت،کئی زبانیں،کئی مذاہب اور مختلف طرززندگی یہاں کی قومی پہچان ہے۔ یہی وہ طاقتورنظریہ اور منفرد پہچان ہے جس نے ہم ہندوستانیوں کوملک کی آزادی کے لیے لازوال ولافانی قربانیاں دینے پر آمادہ کیا اور اب آزاد ہندوستان میں سیکولرزم اور جمہوریت کے تئیں ہماری عہدبستگی اسی نظریہ اور پہچان کی وجہ سے ہے۔ مولاناقاسمی نے زوردے کر کہاکہ تاریخ بنتی ہے تاریخ بنائی نہیں جاتی،تاریخ شہادت دیتی ہے کہ آزادی ہماری ساجھی وراثت ہے اور ساجھی قربانیوں سے حاصل ہوئی ہے۔
انھوں نے اس ضمن میں1731ء سے لے کر1947ء تک تاریخ وار جدوجہدآزادی کاتفصیل سے ذکر کیااورکہاکہ آزادی کے بعد سے ہی ملک کی کئی شدت پسند جماعتوں کی طرف آزادی کی تاریخ میں چھیڑچھاڑکرنے کا سلسلہ جاری ہے اور آج اس میں مزید تیزی آگئی ہے،اس ساجھی وراثت اورساجھی شہادت کوکچھ لوگ جھٹلانے پراپنی طاقت صرف کررہے ہیں اور ایسا تاثر دے رہے ہیں کہ آزادی کی جدوجہدمیں مسلمانوں کاحصہ نہیں ہے اور یہ تاثر ایسے لوگ دے رہے ہیں جن کاآزادی کی جدوجہدمیں خود کوئی حصہ نہیں ہے۔مولاناقاسمی نے کہاکہ ضرورت اس بات کی ہے کہ جنگ آزادی میں مسلمانوں نے جوقربانیاں دی ہیں اور علمائے کرام نے جوکردار اداکیاہے انھیں یکجاکیاجائے اورنصاب کی شکل دے کر خاص طورپرنسلِ نوکواس سے متعارف کرایاجائے۔ انھوں نے اخیر میں پورے حوصلہ کے ساتھ یہ کہتے ہوئے کہ ہم نے مل کرملک کوآزادکرایاہے اور ہم سب مل کرملک کی آزادی کی حفاظت بھی کریں گے، اس شعر پراپنی بات پوری کی:اے وطن خاکِ وطن وہ بھی دے دیں گے تجھے،جولہوگربچاخون کی برسات کے بعد۔