پیرس۔ فرانس میں جنسی خدمات پر پابندی کے قانون کے ایک سال مکمل ہونے پر مظاہرہ۔ جسم فروشی کی صنعت سے تعلق رکھنے والے افراد نے فرانس کے دارالحکومت پیرس میں سنیچر کے روز رقم کے عوض جسم فروشی کرنے پر پابندی کے قانون کی منظوری کا ایک سال مکمل ہونے پر احتجاج کیا۔ مظاہرین، جن میں بڑی تعداد میں نوجوان خواتین تھیں اور بعض مردوں نے بینرز اٹھائے ہوئے تھے جن پر درج تھا ‘جرمانے بند کرو، ہم پر تشدد، ایڈز اور دوخلاپن ہمارے خریدار نہیں ہیں’۔ یہ قانون جس کی خلاف ورزی کرنے پر تقریباً 4000 ڈالر کا جرمانہ عائد کیا جاتا ہے اس لیے منظور کیا گیا تاکہ خریداروں کے لیے رقم کے عوض جسم خدمات حاصل کرنے کو غیر قانونی بنا دیا جائے۔
مظاہرین نے سفید رنگ کے نقاب پہنے ہوئے تھے اور ان کے پاس بینرز تھے جن پر لکھا ہوا تھا ‘جسم فروشی بھی ایک کام ہے’۔ تنظیم ڈاکٹرز آف دی ورلڈ کے ٹم لیسٹر کہنا تھا کہ اس قانون کی منظور کے بعد سے جنسی خدمات حاصل کرنے والوں کی تعداد میں کمی ضرور واقع آئی ہے لیکن اس کی وجہ سے جسم فروشی کی صنعت سے وابستہ لوگوں کے لیے روزگار کم ہوا ہے اور تشدد میں اضافہ، جس کے وجہ سے یہ قانون ناکام ثابت ہوا ہے۔
واضح رہے کہ پچھلے سال فرانس کی پارلیمان کے ممبران نے نئے قانون کو منظور کیا تھا جس کے تحت رقم کے عوض جنسی خدمات حاصل کرنا غیر قانونی قرار دے دیا گیا تھا۔ قانون کی خلاف ورزی کرنے والوں پر 4000 ڈالر تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔ وہ افراد جو اس جرم کا ارتکاب کریں گے ان کو تربیتی کورس بھی لینا ہوگا جس میں انھیں اس صنعت سے وابستہ لوگوں کے حالات سے بتایا جائے گا۔ پارلیمان کے ایوان بالا اور ایوان زیریں میں اختلافات کی وجہ سے اس متنازع قانون کو منظور کرانے میں دو سال کا عرصہ لگ گیا تھا۔
سویڈن دنیا کا پہلا ملک تھا جس نے 1999 میں رقم کے عوض جنسی خدمات حاصل کرنے پر پابندی لگائی تھی۔ 2016 کے آغاز میں یورپی یونین نے ایک قرار داد منظور کی تھی جس کے مطابق اس قانون کو پورے یورپ میں لاگو کرنے کی تجویز دی گئی تھی۔ لیکن جنسی خدمات کی صنعت کے حقوق سے تعلق رکھنے والی تنظیموں نے کہا تھا کہ اس قانون کے تحت جسم فروشی سے تعلق رکھنے والوں کے خطرات بڑھ جائیں گے۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والی جسم فروشی کے کاروبار سے منسلک اور انٹرنیشنل یونین آف سیکس ورکرز کی رکن کیتھرین سٹیفنس نے کہا کہ اس قانون کے اطلاق کے نتیجے میں اس صنعت میں کام کرنے والوں کے لیے ایسے خریداروں کو خدمات دینی پڑیں گی جو اپنی شناخت چھپا سکیں گے اور اس کی وجہ سے وہ آسانی سے بلا جھجک تشدد کر سکیں گے۔ ‘