لکھنؤ: یوپی میں اتحاد سے الیکشن دلچسپ ہونے کا امکان ہے۔ سماج وادی پارٹی اور کانگریس کے درمیان انتخابی اتحاد سے اترپردیش اسمبلی کا الیکشن کافی دلچسپ ہونے کے ساتھ ہی کئی سیٹوں پر جیت ہار کا فرق کافی کم ہو جائے گا۔ اتحاد کے بارے میں تمام سیاسی جماعتیں اپنے اپنے طریقے سے تشریح کر رہی ہیں، لیکن حقیقت یہ ہے کہ انتخابات دلچسپ ہوگا۔ کئی سیٹوں پر ہار جیت کا فرق بھی کافی کم رہے گا۔ ایس پی اور کانگریس لیڈروں نے اتحاد ہونے کی بات قبول کر لی ہے۔ اس کا محض رسمی اعلان باقی ہے۔ کچھ سیٹوں پر تال میل ہونا باقی ہے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ایک دو دن میں مشترکہ پریس کانفرنس کے ذریعے اتحاد کا باقاعدہ اعلان ہو جائے گا۔
اتحاد میں کانگریس کو تقریبا 90 سیٹ دینے کی قیاس آرائی کی جارہی ہے۔ راشٹریہ لوک دل سے سیٹوں کے تال میل پر بات آخری دور میں بتائی جا رہی ہے۔ سماج وادی پارٹی کے ایک رہنما کا کہنا ہے کہ آر ایل ڈی بھی اتحاد کاحصہ ہوگی۔ تاہم، آر ایل ڈی کی ایس پی کے مقابلے کانگریس سے زیادہ بات چیت ہو رہی ہے۔
سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق اتحاد ہونے کی صورت میں غیر بی جے پی ووٹ زیادہ تقسیم نہیں ہوں گے۔ اس سے ایس پی، کانگریس اور اتحادمیں شامل دیگر جماعتوں کو فائدہ ہو گا۔ تاہم، اس سے بی جے پی کو تھوڑا نقصان ہونے کا امکان ہے۔ ادھر بی جے پی کا کہنا ہے کہ لڑائی سہ طرفہ ہونے پر ہی اس کے امیدواروں کو فائدہ ہوگا۔ سیدھی لڑائی میں اس کے امیدوار کو نقصان ہی ہو گا۔
کانگریس کے سینئر لیڈر اور راجیہ سبھا رکن پرمود تیواری کا کہنا ہے کہ رسمی طور پر یہ اتحاد ہونے کے بعد ہی کچھ بولیں گے، لیکن ابھی صرف وہ اتنا کہہ سکتے ہیں کہ کانگریس اور سماج وادی پارٹی اتحاد سے دونوں کا فائدہ ہوگا اور اکھلیش یادو ایک بار پھر وزیر اعلی بنیں گے۔
بی جے پی کے ریاستی جنرل سکریٹری وجے بہادر پاٹھک کا کہنا ہے کہ اکھلیش یادو نے اتحاد کی بات کرکے انتخابات سے پہلے ہی اپنی کمزوری ثابت کر دی۔ مکمل اکثریت والی حکومت چلا رہے تھے تو اتحاد کی بات کیوں کی۔ کیا انہیں اپنے ترقیاتی کاموں پر بھروسہ نہیں رہ گیا۔ اب تو ایس پی اکھیلیش ہی ہے، پھر بھی اتحاد کی بات کرکے وزیر اعلی نے یہ ثابت کر دیا کہ ایس پی کمزور ہوئی ہے اور وہ انتخابات اپنے دم پر لڑنے کے قابل نہیں ہے۔
مسٹر پاٹھک نے کہا کہ سماج وادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) دونوں کے لیڈر کہنے لگے ہیں کہ اتحاد سے ہی بی جے پی کو اقتدار میں آنے سے وہ روک سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ریاست کی موجودہ حکومت پوری طرح ناکام ثابت ہوئی ہے۔ سیاسی اعتبار سے جو پارٹی مضبوط ہوتی ہے اسی کے خلاف تمام جماعتیں بولتی ہیں۔ 2012 میں بی ایس پی کے خلاف بی جے پی اور ایس پی بولتی تھیں اور اس وقت ایس پی، کانگریس اور بی ایس پی تینوں ہی بی جے پی کے خلاف بول رہی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ بی جے پی کی پوزیشن مضبوط ہے اور وہ اقتدار میں آ رہی ہے۔ ان کا دعوی ہے کہ بی جے پی اپنی کارکنوں کی بدولت عوام کی حمایت سے 300 نشستوں پر کامیابی حاصل کرے گی۔
دوسری طرف سیاسی تجزیہ کار رامادھین سنگھ کا کہنا ہے کہ کانگریس کی نظر 2017 پر کم 2019 پر زیادہ ہے۔ اس الیکشن میں اتحاد کرکے وہ اپنی طاقت بڑھانا چاہتی ہے۔ تاکہ اسے 2019 میں ہونے والے لوک سبھا انتخابات میں اس کا فائدہ ملے۔ مسٹر سنگھ کا کہنا ہے کہ اتحاد اور بی ایس پی امیدواروں کے مضبوطی سے لڑنے پر انتخابی لڑائی سہ طرفہ ہوگی۔ اس کا فائدہ بی جے پی کو مل سکتا ہے کیونکہ بی جے پی مخالف ووٹ دو یا دو سے زیادہ امیدواروں میں تقسیم ہوں گے۔ تاہم اتحاد میں شامل جماعتوں کے ووٹوں کا ایک امیدوار کے حق میں جانا بی جے پی کے لئے تشویش کا موضوع ہو سکتا ہے ۔
کچھ بھی ہو، اتحاد ہونے کی حالت میں الیکشن دلچسپ ہوگا۔ امیدواروں کو سخت محنت کرنی پڑے گی۔شاید ہی کوئی سیٹ ایسی ہوگی جس پر انتخابات کے نتائج آنے سے پہلے یقینی طور پر یہ کہا جا سکے کہ ‘فلاں امیدوار ہی جیتے گا۔ ساتھ ہی ساتھ سبھی پارٹیوں کی نگاہیں مسلم ووٹ بینک پر بھی ٹکی ہوئی ہیں۔ اس کی وجہ یہ بتائی جارہی ہے کہ اب تک مسلمانوں نے اپنے پتے نہیں کھولے ہیں ۔ تقریبا یہ بھی طے مانا جارہا ہے کہ مسلم ووٹروں کا جس طرف رجحان ہوگا ، اس پارٹی کے کامیاب ہونے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔