لندن۔ برطانوی پارلیمان کے ایوان زیریں نے حتمی ووٹ کے ذریعے برطانیہ کے یورپی یونین چھوڑنے کے حوالے مذاکرات کے آغاز کی منظوری دے دی ہے۔ ایوان زیریں میں 122 کے مقابلے 494 ارکان پارلیمان نے وزیراعظم ٹریزا مے کو بریگزٹ مذاکرات شروع کرنے کے حق میں فیصلہ دیا ہے۔
بریگزٹ کا فیصلہ، اب آگے کیا ہو گا؟
اب اس بل کو مزید جانچ پڑتال کے لیے ایوان بالا یعنی ہاؤس آف لارڈز میں پیش کیا جائے گا۔ تاہم لیبر پارٹی کے 52 اراکینِ پارلیمنٹ نے اپنی پارٹی کے موقف سے بغاوت کی ہے جس میں لیبر پارٹی رہنما کلائیو لیوئس بھی شامل ہیں۔ کلائیو لیوئس کا پہلے کہنا تھا کہ وہ یورپی یونین بل کے حوالے سے کوئی فیصلہ نہیں کر سکے تاہم انھوں نے حتمی ووٹنگ کا وقت شروع ہونے قبل استعفی دے دیا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ‘کسی ایسی چیز کے ووٹ نہیں کرسکتے جس کے بارے میں وہ سمجھتے ہیں کہ اس سے اس شہر کو نقصان پہنچے گا جس کی نمائندگی میرے لیے اعزاز ہے، جسے میں گھر سمجھتا ہوں۔’
رہنما جیریمی کوربائن کا کہنا تھا کہ وہ کچھ ارکان پارلیمان کے ووٹنگ کے حوالے سے مشکلات کو سمجھتے ہیں تاہم ان کا کہنا ہے کہ انھیں آرٹیکل 50 کی حمایت کرنے کا حکم دیا گیا تھا کیونکہ ان کی جماعت ‘بریگزٹ کو بلاک نہیں کرسکتی۔’
وزیراعظم ٹریزا مے نے لسبن معاہدے کے آرٹیکل 50 کے ذریعے یورپی یونین کے ساتھ مذاکرات کے آغاز کے لیے 31 مارچ کی حتمی تاریخ مقرر کر رکھی ہے۔ یاد رہے کہ برطانیہ کی عدالت عظمیٰ نے حکم دیا تھا کہ بریگزٹ پر عمل درآمد شروع کرنے کا فیصلہ پارلیمان میں ووٹنگ کے ذریعے کیا جائے۔ اس عدالتی فیصلے کا مطلب یہ تھا وزیراعظم ٹریزا مے ارکان پارلیمان کی منظوری کے بغیر یورپی یونین کے ساتھ بات چیت شروع نہیں کر سکیں گی۔
خیال رہے کہ گذشتہ سال جون میں برطانیہ میں یورپی یونین میں رہنے یا نکل جانے کے سوال پر ہونے والے تاریخی ریفرنڈم کے نتائج کے مطابق 52 فیصد عوام نے یورپی یونین سے علیحدگی ہونے کے حق میں جبکہ 48 فیصد نے یونین کا حصہ رہنے کے حق میں ووٹ دیا تھا۔