راچی: معروف سماجی کارکن اور ایدھی فاؤنڈیشن کے بانی چیئرمین عبدالستار ایدھی جمعے کی رات طویل علالت کے بعد انتقال کر گئے۔ ان کی عمر 92 برس تھی۔
انہیں گزشتہ روز معمول کے ڈائیلاسز کے لئے سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) منتقل کیا گیا تھا جبکہ وہ گزشتہ کئی دنوں سے شدید علالت کے باعث اسپتال میں داخل تھے۔
ان کی نماز جنازہ ہفتے کو بعد نماز ظہر میمن مسجد میں ادا کی جائے گی اور تدفین ایدھی قبرستان میں ہوگی۔
ہسپتال کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فیصل ایدھی نے خبر کی تصدیق کی۔ ان کا کہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی نے 25 سال قبل ایدھی ویلیج میں اپنی قبر تیار کی تھی اور ان کی تدفین وہیں پر ہوگی۔
عبدالستار ایدھی نے اپنی دونوں آنکھیں عطیہ کر دی ہیں، جو دو مختلف شہریوں کو لگائی جائیں گی۔ انہوں نے باقی اعضا بھی عطیہ کرنے کی وصیت کی تھی لیکن صرف آنکھیں ہی درست حالت میں ہونے کی وجہ سے عطیہ کی گئی ہیں۔
قبل ازیں سندھ انسٹی ٹیوٹ آف یورولوجی اینڈ ٹرانسپلانٹیشن (ایس آئی یو ٹی) کے ترجمان کا کہنا تھا کہ عبدالستار ایدھی 10 سال سے ایس آئی یو ٹی میں علاج کروا رہے ہیں جبکہ 2013 سے ان کا ڈائیلائیسز بھی یہی ہورہا تھا۔
واضح رہے کہ عبدالستار ایدھی کو جمعے کی دوپہر طبیعت بگڑنے پر ایس آئی یو ٹی کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں منتقل کر دیا گیا تھا، جہاں انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا تھا۔
عبدالستار ایدھی کی بیگم بلقیس ایدھی اور ان کے صاحبزادے فیصل ایدھی نے دوپہر کو پریس کانفرنس میں ان کی صحت کے حوالے سے آگاہ کرتے ہوئے بتایا تھا کہ انہیں سانس لینے میں دشواری کا سامنا ہے جس کے باعث انہیں وینٹی لیٹر پر رکھا گیا ہے۔
گذشتہ ماہ انہوں نے سابق صدر آصف علی زرداری کی جانب سے بیرونِ ملک علاج کی پیشکش کو ٹھکرا دیا تھا۔
ایدھی کا سماجی خدمت کا سفر
عبالستار ایدھی 1928 میں ہندوستان کے علاقے گجرات میں ایک مسلمان تاجر کے گھر پیدا ہوئے اور 1947 میں ہجرت کرکے پاکستان آگئے۔
انہوں نے 1951 میں خدمتِ خلق کا فیصلہ کیا اور شہرِ قائد کے قلب میں نہایت پُرامید ہو کر اپنا کلینک کھولا۔
اپنی سوانح حیات ‘اے میرر ٹو دی بلائنڈ’ میں ایدھی صاحب نے لکھا ہے کہ ‘معاشرے کی خدمت میری صلاحیت تھی، جسے مجھے سامنے لانا تھا۔’
ایدھی اور ان کی ٹیم نے میٹرنٹی وارڈز، مردہ خانے، یتیم خانے، شیلٹر ہومز اور اولڈ ہومز بھی بنائے، جس کا مقصد معاشرے کے غریب و بے سہارا لوگوں کی مدد کرنا تھا۔
اس ادارے کا نمایاں شعبہ اس کی 1500 ایمبولینسیں ہیں جو ملک میں دہشت گردی کے حملوں کے دوران بھی غیر معمولی طریقے سے اپنا کام کرتی نظر آتی ہیں۔
سنہ 2000 میں گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈز میں ایدھی فاؤنڈیشن کا نام بحیثیتِ دنیا کی سب سے بڑی فلاحی ایمبولینس سروس درج کیا گیا۔
ان کے ادارے کا سالانہ بجٹ ڈیڑھ ارب روپے ہے، جس کا بڑا حصہ پاکستان کے متوسط طبقے کی جانب سے دی گئی امداد پر مشتمل ہوتا ہے۔ اس بجٹ میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے۔
بلقیس ایدھی نے خبررساں ادارے اے ایف پی کو بتایا تھا کہ ‘انھوں (ایدھی) نے اپنے بچوں کے لیے کوئی گھر نہیں بنایا۔
بلقیس ایدھی ان کے شانہ بشانہ کھڑی تھیں اور فاؤنڈیشن کے خواتین اور بچوں کے شعبے کے انتظامات سنبھال رہی ہیں۔
عبدالستارایدھی کو کئی مرتبہ نوبیل امن انعام کے لیے نامزد کیا گیا اور رواں سال بھی فہرست میں شامل تھے۔