کابل۔ کابل میں فوجی اسپتال پر دولتِ اسلامیہ کے حملے میں 30 ہلاک ہو گئے۔ افغان وزارتِ دفاع کے مطابق دارالحکومت کابل کے سب سے بڑے فوجی ہسپتال پر مسلح شدت پسندوں کے حملے میں کم از کم 30 افراد ہلاک ہو گئے ہیں۔ اس حملے میں 50 سے زیادہ افراد زخمی بھی ہوئے ہیں۔ افغان فوج کے کمانڈوز نے کئی گھنٹوں کی لڑائی کے بعد تمام حملہ آوروں کو بھی ہلاک کر دیا ہے۔ شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے۔
افغان وزراتِ دفاع کے ترجمان دولت وزیری کے مطابق بدھ کی صبح سردار داؤد خان ہسپتال کے صدر دروازے پر ایک خودکش حملے کے بعد تین حملہ آور عمارت کے اندر داخل ہوئے۔ 400 بستروں پر مشتمل یہ ہسپتال کابل میں امریکی سفارتخانے کے قریب ہے۔ روئٹرز نے ایک سکیورٹی اہلکار کے حوالے سے بتایا ہے کہ خودکار ہتھیاروں اور دستی بموں سے لیس حملہ آوروں نے ہسپتال کی تیسری اور چوتھی منزل پر پناہ لی ہوئی تھی۔
عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ یہ شدت پسند ڈاکٹروں کے بھیس میں تھے اور انھوں نے ہسپتال کہ عملے اور وہاں موجود مریضوں پر اندھا دھند فائرنگ کی۔ اسپتال کے ایک اہلکار نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ انھوں نے ایک حملہ آور کو ڈاکٹر کا کوٹ پہنے دیکھا تھا اور اس شخص نے کوٹ کے نیچے سے رائفل نکالی اور فائرنگ کر کے دو لوگوں کو گولیاں مار دیں۔
اسپتال کے عملے کے ایک شخص نے فیس بک پر لکھا، ’حملہ آور ہسپتال میں ہیں، ہمارے لیے دعا کریں۔‘ ٹیلی وژن پر نشر ہونے والے مناظر میں لوگوں کو حملہ آوروں سے بچنے کے لیے کھڑکیوں سے باہر لٹکے دیکھا جا سکتا تھا۔ یہ کارروائی چھ گھنٹے کے آپریشن کے بعد اختتام کو پہنچی اور وزارتِ داخلہ کے ترجمان صادق صدیقی نے بتایا کہ افغان فوج کے خصوصی دستوں نے اس آپریشن میں حصہ لیا۔
افغان صدر اشرف غنی کا کہنا ہے کہ اس حملے نے انسانی اقدار کی خلاف ورزی کی ہے۔ انھوں نے کہا کہ تمام مذاہب میں ہسپتال کو حملوں سے محفوظ مقام قرار دیا گیا ہے اور اس پر حملہ کرنا پورے افغانستان پر حملہ کرنا ہے۔ پاکستان کی وزارتِ خارجہ نے بھی کابل حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے متاثرہ خاندانوں سے اظہار تعزیت کیا ہے۔ وزراتِ خارجہ کے بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان دہشت گردی کے خاتمے کے لیے افغان حکومت سمیت عالمی برادری سے تعاون جاری رکھے گا۔