نئی دہلی۔ وقف املاک کے 50 فیصد حصے پر مافیاؤں کا قبضہ قابل تشویش ہے۔ مرکزی وزیر مملکت برائے اقلیتی امور (آزادانہ چارج) و پارلیمانی امور مختار عباس نقوی نے آج یہاں سینٹرل وقف کونسل کی 75 ویں میٹنگ کو خطاب کرتے ہوئے وقف املاک کے 40 سے 50 فیصد حصے پر وقف مافیاؤں کے قبضے پر شدید تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ حکومت ایسے مافیاؤں کے خلاف جلد ہی سخت کارروائی کرے گی۔
انہوں نے مزید کہا کہ وقف املاک پر نہ صرف مافیاؤں کا قبضہ ہے بلکہ قبضہ کرنے والوں میں ریاستی وقف بورڈوں کے بعض عہدیداران کے بھی ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس کے لئے ایک کمیٹی بنائی گئی ہے جو 2 مہینے کے اندر اپنی رپورٹ پیش کرے گی اور پھر حکومت ایسے مافیاؤں اور عہدیداروں کے خلاف سخت کارروائی کرے گی۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ وقف املاک کی ترقی اور معاشرے کے مفادات میں ان کے استعمال کے راستے میں ایسے لوگ کئی طرح کی رکاوٹیں ڈالتے ہیں۔ کچھ وقف بورڈوں میں سنگین خرد برد کے معاملے بھی سامنے آئے ہیں جن کی اعلی سطحی انکوائری چل رہی ہے ۔ انکوائری مکمل ہونے پر ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔
نقوی نے کہا کہ وزیر اعظم مسٹر نریندر مودی کی قیادت میں اقلیتی وزارت اقلیتوں کو سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی طور پر با اختیار بنانے کے عہد کے ساتھ ایک مشن کے طور پر کام کر رہی ہے اور اقلیتی وزارت کی تمام فلاحی منصوبوں کا اثر زمین پر نظر آنے لگا ہے۔ مرکزی وزیر نے کہا کہ مرکزی حکومت کی طرف سے اقلیتوں کو با اختیار بنانے کے لئے کئے جانے والے کاموں میں وقف املاک کا مسلم طبقے کو سماجی ، اقتصادی اور تعلیمی با اختیار بنانے کے لئے استعمال کیا جانا بنیادی ترجیحات میں شامل ہے۔ مسٹر نقوی نے اس بات پر خوشی کا اظہار کیا کہ بہت سی ریاستی حکومتیں اور وقف بورڈ اس معاملے میں بہت اچھا کام کر رہے ہیں۔ وزیر مملکت نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ تمام وقف بورڈ اور وقف املاک کے ریکارڈ ڈیجیٹل ہو جائیں۔ اقلیتی وزارت اس سلسلے میں ریاستی وقف بورڈز کو ہر ممکن مدد دے رہی ہے۔ وقف املاک کے كمپيوٹرائزیشن سے وقف جائیدادوں کے ریکارڈز شفاف ہو سکیں گے۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ وقف املاک کی شکایات / تنازعات کے حل کیلئے مرکزی سطح پر سپریم کورٹ کے سابق جج کی سربراہی میں ایک رکنی ’’بورڈ آف ایڈجوڈكشن‘‘ تشکیل کی گئی ہے جس کے لئے چھتیس گڑھ ہائی کورٹ کے سابق چیف جسٹس اور سپریم کورٹ کے ریٹاریر جج ایم وائی اقبال کو نامزد کیا گیا ہے۔ اسی طرح کئی ریاستوں میں سہ رکنی ٹریبونل قائم کیاجا رہا ہے جبکہ تقریبا 24 ریاستوں میں ان کا قیام عمل میں آ جا چکا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ دوسری ریاست بھی جلد ہی اس کا قیام عمل لائیں گے۔ رجسٹرڈ اور غیر رجسٹرڈ وقف املاک کی تعداد تقریبا 4،49،314 ہے۔ ریکارڈ کے كمپيوٹرائزیشن کے بعد اس تعداد میں مزید اضافہ ہوسکتا ہے۔ اس کی بھی اطلاع ملی ہے کہ كمپيوٹرائزیشن کے عمل کے دوران کچھ وقف بورڈ املاک کو رجسٹرڈ نہیں کرا رہے ہیں، ایسی شکایات پر سخت کارروائی کے لیے لائحہ عمل تیار کیا جارہاہے۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ بجٹ 18۔21017 میں وقف املاک کےكمپيوٹرائزیشن کے لئے 3 کروڑ 30 لاکھ ریاستی وقف بورڈوں کے ڈیولپمنٹ کے لئے 90 کروڑ 70 لاکھ کے علاوہ وقف کو گرانڈ ان ایڈ کے شکل میں 3 کروڑ 18 لاکھ روپے کی رقم مختص کی گئی ہے۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظم نریندر مودی کی زیر قیادت مرکزی حکومت کا واحد مقصد غریبوں، کمزور طبقات، پسماندہ طبقات اور اقلتیوں کی آنکھوں میں خوشی اور زندگی میں خوشحالی لانا ہے۔ اسی ہدف کے ساتھ پیش رفت کرتے ہوئے مرکزی حکومت نے اس بار وزارت اقلیتی امور کے بجٹ میں اضافہ کیا ہے۔ مسٹر نقوی نے کہا کہ 18۔2017 کے لیے وزارت اقلیتی امور کا بجٹ بڑھاکر 4195.48 کروڑ روپے کردیا گیا ہے۔ یہ گذشتہ بجٹ 3827.25 کروڑ روپے کے مقابلے 368.23 کروڑ روپے (9.6 فیصد کا اضافہ) زیادہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ بجٹ میں اضافے سے اقلیتوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی ترقی میں مدد ملے گی۔ خیال رہے کہ آج کی میٹنگ میں گجرات، کیرالہ، کرناٹک، تمل ناڈو، گجرات، اترپردیش، مدھیہ پردیش، چھتیس گڑھ اور دہلی سمیت کئی ریاستوں کے وقف بورڈ کے عہدیداروں نے شرکت کی۔