ممبئی : درد بھرے نغموں کے بے تاج بادشاہ مکیش ذاتی زندگی میں بے حد حساس انسان تھے جو دوسروں کے دکھ درد کو اپنا سمجھ کر اسے دور کرنے کی کوشش کرتے تھے .
ایک بار ایک لڑکی بیمار ہو گئی. اس نے اپنی ماں سے کہا کہ اگر مکیش انہیں کوئی گانا گا کر سنائیں تو وہ ٹھیک ہو سکتی ہے . ماں نے جواب دیا کہ مکیش بہت بڑے گلوکار ہیں. بھلا ان کے پاس تمہارے لئے کہاں وقت ہے . اگر وہ آتے بھی ہیں تو اس کے لئے کافی پیسے لیں گے . تب اس کے ڈاکٹر نے مکیش کو
اس لڑکی کی بیماری کے بارے میں بتایا.
مکیش فوری طور پر لڑکی سے ملنے ہسپتال گئے اور اسے گانا گا کر سنایا اور اس کے لئے انہوں نے کوئی پیسہ نہیں لیا. لڑکی کو خوش دیکھ کر مکیش نے کہا “یہ لڑکی جتنی خوش ہے اس سے زیادہ خوشی مجھے ملی ہے .”
مکیش چند ماتھر کا جنم 22 جولائی 1923 کو دہلی میں ہوا تھا. ان کے والد لالہ زوراور چند ماتھر ایک انجنیئر تھے اور وہ چاہتے تھے کہ مکیش ان نقشے قدم پر چلیں لیکن وہ اپنے زمانے کے مشہور گلوکار اداکارکندن لال سہگل کے بہت بڑے مداح تھے اور انہیں کی طرح گلوکار اداکار بننے کا خواب دیکھا کرتے تھے ۔
مکیش نے دسویں جماعت تک تعلیم حاصل کرنے کے بعد اسکول چھوڑ دیا اور دہلی کے تعمیرات عامہ کے شعبہ میں کام شروع کیا۔جہاں انہوں نے سات ماہ تک نوکری کی ۔ اسی دوران ان کی بہن کی شادی میں گیت گاتے وقت ان کے دور کے رشتہ دار مشہور اداکار موتی لال نے ان کی آواز سنی اور اس سے متاثر ہو کر وہ انہیں 1940 میں وہ ممبئی لے آئے اور انہیں اپنے ساتھ رکھ کر پنڈت جگناتھ پرساد سے موسیقی سکھانے کا بھی انتظام کیا۔
اسی دوران مکیش کو ایک ہندی فلم ‘معصوم’ 1941. میں اداکار بننے کا موقع مل گیا جس میں انہوں نے اداکاری کے ساتھ ساتھ موسیقار اشوک گھوش کی ہدایت میں اپنا پہلا گیت ‘دل ہی بجھا ہوا ہو تو’ بھی گایا.
اگرچہ یہ فلم باکس آفس پر بری طرح فلاپ ہوگئی تھی۔ اس کے بعد مکیش نے دکھ سکھ اداب عرض. جیسی کچھ اور فلموں میں بھی کام کیا لیکن وہ اپنی شناخت بنانے میں کامیاب نہیں ہو سکے .
موتی لال مشہور موسیقار انل وشاواس کے پاس مکیش کو لے کر گئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ اپنی فلم میں مکیش سے کوئی نغمات گوائیں۔. سال 1945 میں آئی فلم پہلی نظر میں انل وشواس کی موسیقی میں ‘دل جلتا ہے تو جلنے دے ‘ گانے کے بعد مکیش کسی حد تک اپنی شناخت بنانے میں کامیاب ہو گئے .
مکیش نے اس گیت کو سہگل کے انداز میں ہی گایا. سہگل نے جب یہ گیت سنا تو انہوں نے کہا تھا ‘عجیب بات ہے ‘ مجھے یاد نہیں آتا کہ میں نے کبھی یہ گیت گایا ہے . اسی گیت سننے کے بعد سہگل نے مکیش کو اپناجانشین قرار دیا تھا.
سہگل کی گائیکی کے انداز سے متاثر رہنے کی وجہ سے انہوں نے ابتدائی دور کی فلموں میں مکیش سہگل کی طرز میں ہی گیت گایا کرتے تھے لیکن سال 1948 میں نوشاد کی موسیقی میں فلم ‘اسٹائل’ کے بعد مکیش نے اپنے گانے کا اسٹائل تبدیل کرلیا۔
مکیش کے دل میں یہ خواہش تھی کہ وہ گلوکار کے ساتھ ساتھ اداکار کے طور پر بھی اپنی شناخت بنائیں۔ بطور اداکار سال 1953 میں ریلیز فلم ‘معشوقہ’ اور سال 1956 میں آئی فلم ‘انوراگ’ کی ناکامی کے بعد انہوں نے دوبارہ گانے کی طرف توجہ مرکوز کی۔
اس کے بعد سال 1958 میں آئی فلم یہودی کے گانے ‘یہ میرا دیواناپن ہے ‘ گانے کی کامیابی کے بعد مکیش کو ایک بار پھر سے بطور گلوکار اپنی شناخت ملی. اس کے بعد مکیش نے ایک سے بڑھ کر ایک گیت گا کر سامعین کو اپنی آواز کا دیوانہ بنایا۔
مکیش نے اپنے تین دہائی کے فلمی کیریئر میں 200 سے بھی زیادہ فلموں کے لیے نغمے گائے . مکیش کو ان کے گائے گیتوں کیلئے چار بار فلم فیئر کے بہترین گلوکار گیت کے ایوارڈ سے نوازا گیا. اس کے علاوہ سال 1974 میں ریلیز فلم ‘رجنی گندھا ‘ کے گانے ‘کئی بار یوھ ¸ دیکھا’ کیلئے مکیش قومی ایوارڈ سے بھی نوازا کئے گئے .۔
راج کپور کی فلم ‘ستیم شیوم سندرم’ کے گانے ‘چنچل نرمل شیتل ‘ کی ریکارڈنگ مکمل کرنے کے بعد وہ امریکہ میں ایک پروگرام میں حصہ لینے کے لئے گئے جہاں 27 اگست 1976 کو دل کا دورہ پڑنے سے ان کا انتقال ہو گیا۔
ان کے خصوصی دوست راج کپور کو جب ان کی موت کی خبر ملی تو ان کے منہ سے مجبور نکل گیا ‘مکیش کے جانے سے میری آواز اور روح’ دونوں چلی گئی۔