نئی دہلی۔ جماعت اسلامی ہند نے آئی آرایف پر پابندی غیرآئینی و غیر جمہوریقرار دیتے ہوئے حکومت سے اس فیصلے کو فورا واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
عالمی شہرت یافتہ اسلامی مبلغ ڈاکٹر ذاکر نائک کی غیر سرکاری تنظیم اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن(آئی آرایف) کو پانچ سال کے لئے غیر قانونی قراردینے کے حکومتی فیصلے کی بابت آج جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل محمد سلیم انجینئر نے کہا کہ یہ سراسر جانبدارانہ اور غیر منصفانہ ہے اور اس کی جتنی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ آئینی طور پر دی گئی مذہبی آزادی پرحملہ ہے۔ یہ پابندی مذہبی تبلیغ کے آئینی حقوق میں رکاوٹ پیدا کرنے کے مقصد سے عائد کی گئی ہے۔ جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری جنرل نے کہا کہ یہ قدم خالص سیاسی ہے اور غلط پروپیگنڈہ کی بنیاد پر آئی آر ایف پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ حکومت آئی آرایف پر پابندی عائد کرنے کا فیصلہ پہلے ہی کر چکی تھی بعد میں غلط تاویلات پیش کرکے اس فیصلے پر مہر لگا دی گئی۔
جماعت اسلامی ہند کے سکریٹری نے کہا کہ پر امن طریقے سے مذہب کی تبلیغ و اشاعت کرنے کی جو آزادی آئین نے دی ہے حکومت اسے سلب کرنے کی کوشش کر رہی ہے اور یہ قدم اسی سمت کی طرف اشارہ کرتا ہے اور اس کے ذریعہ حکومت مسلمانوں کی آواز دبانے کی بھی کوشش کر رہی ہے جو انتہائی تشویش کا موضوع ہے۔
یہ اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں کو متنبہ اور خبردارکرنے کی حکومتی کوشش ہے کہ وہ ملک میں اپنے مذہب کی ترویج و اشاعت کی کوششوں کو ترک کر دیں ۔
حکومت کے اس منفی فیصلے سے صرف سیکولر ذہنیت مسخ نہیں ہوں گی بلکہ اس کا اثر ہمارے معاشرتی تانے بانے پر بھی پڑے گا اور یہ آئین میں ہر طبقے کو دئیے گئے حقوق کی بھی صریح خلاف ورزی ہے۔
محمد سلیم انجینئر نے یو اے پی اے پر بھی سوالات اٹھاتے ہوئے کہا کہ اس قانون کا غلط استعمال کیا جا رہا ہے اور اس کے ذریعہ اقلیتوں اور آدی باسی فرقوں میں خوف و ہراس پیداکرنے کی کوشش کی جارہی ہے اور حالیہ برسوں میں اس میں مزید تیزی آئی ہے جو لمحہ فکریہ ہے۔انہوں نے اسے کالے قانون سے تشبیہ دی۔
محمد سلیم انجینئر نے ایک اہم امرکی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ مہاراشٹر کی وزارت داخلہ نے غیر ملکی چندہ(ایف سی آراے)کے معاملے میں آئی آرایف پر کسی بھی قسم کی خلاف ورزی کے مبینہ الزامات سے متعلق جانچ بند کردی تھی اور انہیں کلین چٹ د ے دی تھی۔
اس کے بعد بھی مرکزی کابینہ نے جانبدارانہ فیصلہ کرتے ہوئے اقلیتوں کے خلاف شروع کی گئی مہم کو اور آگے بڑھا دیا ہے۔بنگلہ دیش کے اخبار نے بھی اس بیان کو واپس لے لیا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ دہشت گردانہ حملے میں ملوث ایک دہشت گرد ذاکر نائک کی تعلیمات سے متاثر تھا۔