جموں۔ کشمیر میں ہندوستان سے زیادہ پاکستانی ٹی وی چینل دیکھے جاتے ہیں۔ انجمن منہاج الرسول کے چیئرمین مولانا سید اطہر دہلوی نے دعویٰ کیا ہے کہ وادئ کشمیر کی صورتحال جو پہلے سیاسی نوعیت کی تھی، اب فرقہ وارانہ رنگ اختیار کررہی ہے۔ انہوں نے افغانستان کے حالات کے لئے پاکستان کو ذمہ دار قرار دیتے ہوئے ہوئے کہا ہے کہ یہ ملک (پاکستان) کشمیر میں بھی افغانستان جیسے حالات پیدا کرنے کی سمت میں کام کررہا ہے۔
مولانا نے کشمیر میں حالات کو پٹری پر لانے کے لئے بنیاد پرست گروپوں اور پاکستان کے سوا تمام دیگر متعلقین کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے کی وکالت کی ہے۔ انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ کشمیر میں ہندوستان سے زیادہ پاکستان کی ٹی وی چینلیں دیکھی جاتی ہیں۔ اطہر دہلوی نے یہاں یو این آئی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا ’ماسوائے پاکستان اور بنیاد پرست قوتوں کے تمام متعلقین کے ساتھ مذاکرات کا آغاز کیا جانا چاہیے‘۔ انہوں نے کہا ’ پاکستان نے جو افغانستان میں کیا، اس کو یہاں کشمیر میں دہرانے کی کوششیں کی جارہی ہیں۔ میری ذاتی رائے یہی ہے کہ دہائیوں پرانی اس الجھن کو حل کرنے کے لئے کشمیر میں تمام متعلقین کے ساتھ بات چیت کی جانی چاہیے‘۔
مولانا نے کہا کہ حکومت ہندوستان کو اس الجھن کے حل کے لئے ناگا لینڈ طرز کے مذاکرات شروع کرنے چاہئیں۔ انہوں نے کہا ’پہلے کشمیر کی صورتحال سیاسی نوعیت کی تھی، لیکن اب یہ فرقہ وارانہ رنگ اختیار کررہی ہے‘۔ منہاج الرسول کے چیئرمین نے کہا ’ہماری تنظیم اس خطے بشمول وادئ کشمیر میں امن اور رواداری کی بحالی کے لئے کوشاں رہی ہے‘۔
انہوں نے کہا ’کشمیر کے تین روزہ دورے کے دوران مجھے اس بات کا مشاہدہ ہوا کہ اہلیان وادی امن اور رواداری کے ماحول میں رہنا چاہتے ہیں۔ وہ ترقی چاہتے ہیں‘۔ مولانا اطہر نے کہا کہ کشمیر کی موجودہ صورتحال پنجاب کی مابعد 1984 ء کی صورتحال کے جیسی ہے۔ انہوں نے کہا ’پاکستان کشمیر میں افغانستان اور فلسطین کے جیسے حالات پیدا کرنے کی کوششیں کررہا ہے۔ ہمیں پاکستان کے ان مذموم منصوبوں کو سمجھنا ہوگا‘۔
انہوں نے کہا ’کشمیر میں نوجوان اپنے آپ کو جوڑنا چاہتے ہیں۔ وہ تعلیم اور مختلف سہولیات کے متمنی ہیں۔ اس کے لئے مرکزی سرکار کو ماسوائے بنیاد پرست قوتوں کے اہلیان وادی کے ساتھ مذاکرات شروع کرنے چاہئیں‘۔ کشمیر کی موجودہ صورتحال سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں مولانا اطہر نے کہا ’پاکستان جھوٹے پروپیگنڈے کے ذریعے کشمیری نوجوانوں کو اکسا رہا ہے۔ وہ اس کام کے لئے سوشل میڈیا کو استعمال میں لارہا ہے‘۔ انہوں نے کہا ’تاہم امید کی کرن اب بھی باقی ہے کیونکہ نوجوان چھروں اور بندوقوں کی دنیا سے باہر آنا چاہتے ہیں۔ وہ سہولیا ت چاہتے ہیں‘۔