لندن:جن شیرخوار بچوں کو دو سال تک کی عمر میں اینٹی بائٹک دوا دی جاتی ہے وہ بالغ ہوکر کئی طرح کی الرجی کا شکار ہوجاتے ہیں۔
چار لاکھ لوگوں کے وسیع سروے سے یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے ۔ یہ رپورٹ یوروپ کی سانس کی امراض کی سوسائٹی کو پیش کی جانی ہے اس میں ایکزیمہ اور ‘ہے فیود’ کا براہ راست رابطہ ثابت کیا گیا ہے ۔
پہلے بھی تحقیق سے اینٹی بائٹک کے استعمال اور الرجی کا تعلق ثابت کیا گیا تھا مگر اس کے نتائج اتنے ٹھوس نہیں تھے ۔
اٹریچ یونیورسٹی کی محقق فریہہ احمد یزار کا کہنا ہے کہ غالب امکان ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام اینٹی بائٹک سے متاثر ہوتا ہے جس سے آنتوں کے بیکٹریا پر اثر پڑتا ہے اور پھر اس کا منفی اثر مدافعت پر پڑتا ہے ۔ سائنس داں عرصہ سے اس بات سے پریشان تھے کہ ترقی یافتہ ممالک میں الرجی کی شرح کیوں تیزی سے بڑھ رہی ہے کچھ کا یہ خیال تھا کہ بچپن میں شاید ان کا جراثیم سے واسطہ نہیں پڑتا اس لئے وہ ان سے زیادہ متاثر ہوتے ہیں مگر یہ بات ثابت نہیں ہوپائی تھی۔
تازہ ریسرچ میں 1966 سے 2015 تک 22 الگ الگ مطالعات کئے گئے اور ان سب کے نتائج کو یکجا کرنے کے بعد فریہہ اور ان کے ساتھیوں نے پایا کہ بچپن میں اینٹی بائٹک کے استعمال سے ایکزیمہ ہونے کا خطرہ 15 سے 41 فیصد تک بڑھ جاتا ہے جبکہ ہے فیور (تپ کاہی) کا خطرہ 14 سے 56 فیصد تک بڑھ جاتا ہے ۔
اگر بچپن میں اینٹی بائٹک کے ایک سے زیادہ کورس کئے گئے ہیں تو یہ الرجی سے تعلق اور زیادہ مستحکم ہوجاتا ہے ۔
پرسٹل یونیورسٹی کے امراض اطفال کے پروفیسر ایڈم فن نے کہا کہ اس جائزے سے اینٹی بائٹک کے استعمال کے نقصانات کو ظاہر کردیا ہے ۔
ڈاکٹر پہلے ہی اس بات سے فکرمند ہیں کہ علاج کے لئے اینٹی بائٹک کے زیادہ استعمال سے جسم پر اس کا اثر ختم ہوجائے گا۔
اس کے باوجود فن اور دیگر ماہرین کا کہنا ہے کہ اینٹی بائٹک کے خطرے اور اس کے فائدوں کے درمیان توازن رکھنے کی ضرورت ہے کیونکہ یہ بھی حقیقت ہے کہ بیکٹریا کے انفیکشن سے لڑنے کے لئے یہ لازمی ہتھیار ہے ۔ متعدد امراض پر قابو پاکر اس سے لاکھوں زندگیاں بچائی جاتی ہیں۔