تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ نوازشریف احتساب سے بچ گئے تو ملک کا کوئی مستقبل نہیں رہیگا‘ ساری قوم کو چاہئے کہ باہر نکل آئے اور پاکستان کے اداروں پر دبائو ڈالے اور اس وقت تک سڑکوں پر رہے جب تک انصاف نہیں مل جاتا۔ طاہر القادری سانحہ ماڈل ٹاؤن پر انصاف نہ ملنے پر احتجاج کر رہے ہیں جب کہ عمران خان پانامہ پیپرز میں وزیراعظم کے خاندان کے افراد کے نام آنے کے بارے میں تحقیقات کا مطالبہ کر رہے ہیں‘ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں ہے کہ حکومت نے ان دونوں ایشوز پر ایسے اقدامات نہیں کیے جن سے اپوزیشن مطمئن ہو جاتی بلکہ حکومت ان دونوں ایشوز پر تاخیری حربے اختیار کرتی چلی آ رہی ہے۔ پانامہ پیپرز کی تحقیقات کے لیے تاحال ٹی او آرز ہی طے نہیں ہو سکے‘ تحریک انصاف اور دیگر اپوزیشن پارٹیاں مسلسل اس ایشو پر احتجاج کر رہی ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ عمران خان کو احتساب مارچ کرنا پڑا اور ہفتے کی رات تک لاہور شہر میں غیر یقینی کی صورت حال رہی‘ اسی طرح سانحہ ماڈل ٹاؤن کی تحقیقات کے حوالے سے طاہر القادری اور ان کے ساتھی مطمئن نہیں ہیں‘ حکومت نے جسٹس باقر نجفی کی سربراہی میں جو کمیشن قائم کیا تھا‘ اس کی رپورٹ کو ابھی تک باضابطہ طور پر شایع نہیں کیا گیا۔ماضی میں دھرنوں کی وجہ سے ہونے والا معاشی و سماجی نقصان بھی سب کے سامنے ہے۔ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان دونوں معاملات کا حل نکالے اور اس معاملے میں پہل کرے ۔ اسے چاہیے کہ وہ اپوزیشن کے ساتھ بیٹھ کر ڈیڈ لاک کی کیفیت کو دور کرے، لیت و لعل کی پالیسی ترک کرے اور مسائل کے حل کیلئے ایک ٹائم فریم مقرر کرے تاکہ برسوں سے جاری سیاسی عدم استحکام‘ انتشار اور الزام تراشی کا سلسلہ ختم ہو سکے۔پانامہ لیکس پر وزیراعظم خود کو کئی بار احتساب کیلئے پیش کر چکے ہیں۔ مگر ٹی او آر پر پیش رفت نہیں ہوئی۔ اپوزیشن اور حکومت دو انتہائوں پر ہیں۔ بجلی بحران بدستور جاری ہے۔ مہنگائی بیروزگاری لاقانونیت اور کرپشن کا خاتمہ ہوتا نظر نہیں آ رہا۔ حکومت نے 2013ء میں کئے گئے وعدے پورے کئے ہوتے تو اپوزیشن کو کبھی عوامی پذیرائی نہ ملتی۔ اس حکومت کا سب سے بڑا کارنامہ دہشتگردی کو کم ترین سطح پر لانا ہے مگر اس کا کریڈٹ فوج کو دیا جاتا ہے۔ 2018ء کے الیکشن میں زیادہ عرصہ نہیں رہ گیا۔ حکومت کو اس عرصہ میں اپنے اوپر عوام کا اعتماد بحال کرنا ہو گا دوسری صورت میں پی پی پی جیسے انجام سے بچنا ممکن نہیں ہو گا۔