ماڈل گرل قندیل بلوچ کو ملتان کے نواحی علاقے مظفر گڑھ میں قتل کردیا گیا۔پولیس کا کہنا ہے کہ ان کے بھائی نے گھر میں گلا دباکر قتل کیا۔ ملزم قتل کے بعد فرار ہوگیا۔ والد نے قتل کی اطلاع پولیس کو دی۔
قندیل بلوچ نے کچھ عرصہ قبل وزارت داخلہ سے سیکورٹی بھی مانگی تھی۔کچھ دن پہلے ماڈل قندیل بلوچ نے لاہور میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان کی جان کو خطرہ ہے، وزارت داخلہ انہیں سیکورٹی فراہم کرے۔
سی پی او ملتان اظہر اکرام کا کہنا تھا کہ قندیل بلوچ کو اس کے بھائی وسیم نے گلادباکرقتل کیا ہے۔قتل کی خبر قندیل کے والد نے پولیس کو دی،بیان قلمبند کیاجارہا ہے۔
سی پی او کا مزید کہنا تھا کہ قندیل چاند رات سے نواحی علاقہ مظفرگڑھ میں اپنے گھر پر مقیم تھیں،پولیس کی بھاری نفری موقع پر پہنچ گئی،ملزم کو اب تک گرفتار نہیں کیاجاسکا۔
پی ٹی آئی کے رہنما علی محمد خان نے میڈیاسے بات کرتے ہوئے قندیل بلوچ کے قتل پر گہرے افسوس کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ قندیل بلوچ کے قتل پر بہت افسوس ہوا،اللہ ان کی مغفرت کرے۔
برطانوی نشریاتی ادارے نے قندیل بلوچ کے قتل پر اپنی رپورٹ میں لکھا ہے کہ قندیل بلوچ کو پاکستانی سوشل میڈیا کا سپر اسٹار سمجھا جاتا تھا۔سوشل میڈیا پر اپنی ویڈیوز سے انہوںنے شہرت پائی۔
پنجاب پولیس کی ترجمان کے مطابق قندیل کو ان کے بھائی نے فائرنگ کر کے قتل کیا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ فورنزک ٹیمیں جائے وقوع پر پہنچ چکی ہیں اور پنجاب پولیس کے سربراہ نے اس واقعے کا نوٹس لے لیا ہے۔تاحال اس قتل کی وجہ سامنے نہیں آ سکی ہے ،قندیل کا بھائی اس واقعے کے بعد سے مفرور ہے۔
قندیل بلوچ کو پاکستانی سوشل میڈیا کا سپر اسٹار سمجھا جاتا تھا اور جہاں فیس بک پر انھیں فالو کرنے والوں کی تعداد پانچ لاکھ سے زیادہ ہے وہیں ان کا شمار پاکستان میں گوگل پر سب سے زیادہ تلاش کیے جانے والی دس شخصیات میں ہوتا تھا۔
حال ہی میں ایک نئی ویڈیو بھی سامنے آئی تھی جس میں اپنی پرفارمنس پر وہ ایک بار پھر تنقید کی زد میں تھیں۔
اس سے قبل ماہِ رمضان میں ان کی رویت ہلال کمیٹی کے ایک رکن مفتی عبدالقوی کے ساتھ ’سیلفیز‘ بھی منظرِ عام پر آئی تھیں جن کی وجہ سے مفتی عبدالقوی کو کمیٹی کی رکنیت سے بھی ہٹا دیا گیا تھا۔