پتلی ٹھیک کرنے کاعلاج دنیا میں کہیں موجود نہیں
بیشتر زخمیوں کی پتلیاں ہی شدید طور متاثر
سرینگر//سرینگر صدر اسپتال کے شعبہ امراض چشم میں جاریہ عوامی احتجاجی لہر کے دوران آنکھوں میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے 4سو سے زائد نوجوانوںکی آنکھیں بچانے میں منہمک 500سے زائد جراحیاں انجام دینے والے ڈاکٹرتباہ کن صورتحال دیکھ کر ذہنی تنائو کے شکار ہوچکے ہیںکیونکہ بقول ان کے انہوں نے اپنے پورے کیرئر میں ایسی صورتحال کبھی نہیں دیکھی ہے ۔ڈاکٹروں کا کہناہے کہ ذہنی تنائو کے باوجود تھکان کے باوجود وہ اپنے لوگوں کی جان بچانے کیلئے تیارہیں اور ان کی کوشش ہوگی کہ زیادہ سے زیادہ زخمی نوجوانوں کی بصارت بچائی جائے۔ کشمیر میں پچھلے 36دنوں کی پرُتنائو صورتحال کا اثر نہ صرف عام شہریوں اور مظاہروں میں شامل ہونے والے لوگوں پر پڑ رہا ہے بلکہ اس صورتحال کا سیدھا اثر مظاہرین کے خلاف فورسز کی کاروائی میں زخمی ہونے والے نوجوانوں کا علاج و معالجہ کرنے والے طبی اور نیم طبی عملے پر بھی پڑ رہا ہے۔ سرینگر کے صدر اسپتال کے شعبہ چشم میں پچھلے 36دنوں میں 400سے زائد ایسے زخمیوں کا علاج و معالجہ کیا گیا جنکی آنکھوںمیں پیلٹ لگے تھے اور ڈاکٹروں کو بصارت کی واپسی کیلئے 500سے زائد آپریشن کرنے پڑے ہیں۔ شعبہ چشم میں بطور سرجن کام کرنے والی ایک خاتون ڈاکٹر نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر کشمیرعظمیٰ کے ساتھ بات کرتے ہوئے کہا ’’ پچھلے 36دنوں میں لگاتار ایسے زخمیوں کا علاج کرنا پڑ رہا ہے جو جوانی میں ہی آنکھوں کی بصارت کھونے کے در پر پہنچ چکے ہیں‘‘۔ خاتون ڈاکٹر نے مزید بات کرتے ہوئے کہا ’’ ان میں اکثر زخمیوں کی عمر4سے27سال کے درمیان ہے‘‘۔ مذکورہ خاتون ڈاکٹر نے بتایا ’’ انشاء مشتاق نامی لڑکی کی حالت دیکھ کرخودبخودآنکھوں سے آنسوبہنے لگے کیونکہ ایک لڑکی جوانی کی دہلیز میں آتے ہی آنکھوں کی بصارت سے محروم ہوگئی ہے‘‘۔ خاتون ڈاکٹر نے کہا کہ یہ میرے 10سالہ کیرئیر میں پہلی بار ہوا کہ کسی زخمی کو دیکھ کر آنکھوں میں آنسو آگئے‘‘۔ مذکورہ ڈاکٹر نے کہا کہ اپنے لوگوں کی یہ صورتحال دیکھ کر دماغ پر کافی دبائو پڑتا ہے مگر اس پر تنائو کیفیت پر قابو پانا وقت کی ضرورت ہوتی ہے کیونکہ اپنے لوگوں کا بہترین علاج ہماری اولین ترجیح ہے۔ مذکورہ ڈاکٹر نے کہا ’’ عام دنوں میں آپریشن تھیٹر 10بجے سے لیکر 4بجے تک کھلا رہتا ہے مگر موجودہ صورتحال میں ہم نے آپریشن کرنے کی وقت میں تو سیع کی ہے اور موجودہ حالات میں آپریشن صبح 8بجے سے لیکر شام 8بجے تک آپریشن انجام دیتے ہیں جس کیلئے شعبہ چشم کے تمام ڈاکٹروں کی چھٹی بھی منسوخ کی گئی ہے‘‘۔خاتون ڈاکٹر نے بتایا ’’ موجودہ نامساعد حالات کے دوران طبی اور نیم طبی عملے نے تندہی سے کام کیا جس کی وجہ سے چھرے لگنے سے پریشانی کا سبب بنے والے’’ Retinal infection‘‘ کودور رکھنے میں کامیابی ملی ہے اور چند زخمیوں کی بصارت میں بہتری کے امکانات روشن ہوئے ہیں‘‘۔شعبہ چشم میںکام کرنے والے ایک سینئر سرجن نے نام مخفی رکھنے کی شرط پر بتایا ’’ پیلٹ لگنے سے زخمی نوجوانوں کی صورتحال کافی نازک ہے اور اکثر زخمیوں کی آنکھ کی پتلی کو شدید نقصان پہنچا ہے۔ مذکورہ سرجن نے بتایا ’’36دنوں میں شعبہ امراض چشم میں داخل ہونے والے زخمیوں کی حالات بیان کرنا ناممکن ہے مگر یہ کہا جاسکتا ہے کہ انکے جسم کے اوپری حصہ کوجان بوجھ کر نشانہ بنایا گیا تھا‘‘۔ مذکورہ ڈاکٹر نے مزید کہا’’ آنکھوں کی پتلی ٹھیک کرنے کا علاج دنیا کے کسی بھی کونے میں موجود نہیںہے اور نہ پیوند کاری سے انکی روشنی واپس آنے کے مکانات موجود ہوتے ہیںمگر خوبصورت دکھائی دینے کیلئے مصنوعی آنکھ لگائی جاسکتی ہے‘‘۔ انہوں نے کہ کہ وادی میں پیلٹ لگنے سے زخمی ہونے والے افراد کیلئے بہترین علاج و معالجہ دستیاب ہے۔ مذکورہ ڈاکٹر نے مزید بات کرتے ہوئے کہا ’’ والدین کو بیرون ریاست بچوں کو منتقل کرنے سے کوئی فائدہ نہیں ہوگا کیونکہ آپریشنوں کی موٹی قیمتیں وصول کرنے کے بائوجودنجی اسپتالوں میں انہیں بصارت واپس آنے کی کوئی بھی ضمانت نہیں دی جاتی ہے‘‘۔ مذکورہ ڈاکٹر نے کہا کہ پیلٹ سے ایک آنکھ کھونے والے نوجوانوں کو پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں کیونکہ ایک آنکھ کھونے سے انسان کی بصارت پر صرف30فیصد اثر پڑتا ہے مگر ہماری کوشش ہے کہ تمام زخمیوں کی کچھ فیصد روشنی کو واپس حاصل کیا جائے تاہم یہ اس بات پر انحصار کرے گا کہ زخمی کی پتلی میںآپریشن سے کتنی بہتری آئی ہے۔ شعبہ چشم کے سینئر سرجن نے بتایا کہ ہم بھی اسی سماج کا حصہ ہے اور ہمیں بھی یہ دیکھ کر تکلیف ہوتی ہے اور نوجوانوں کی خراب حالت دیکھ کر ہم ذہنی تنائو کے شکا ر ہوجاتے ہیں مگر ہم تکلیف دہ صورتحال میں ذہنی و جسمانی تھکاوٹ محسوس کرنے کے با جود کھڑے ہوکر اپنے بچوں کی جان بچانے اور انکی بصارت محفوظ رکھنے کیلئے مسلسل کام کررہے ہیں۔