نئی دہلیـ: اردو کے ممتاز ماہر معاشیات،صحافی، ادیب اور شاعر سعید سہروردی کا آج شام یہاں رہائش گاہ پر انتقال ہوگیا۔ وہ 85 برس کے تھے۔مرحوم کافی دنوں سے بیمار چل رہے تھے۔ پسماندگان میں دوبیٹیاں نیلوفر سہروردی (صحافی ) اور پروفیسر تسنیم سہروردی شامل ہیں۔ 2012 میں ان کے بیٹے اور مشہور وکیل انیس سہروردی کا اچانک دل کا دورہ پڑنے سے انتقال ہوگیا تھا۔ دوبرس قبل ان کی اہلیہ شاہدہ سہروردی بھی چل بسی تھیں۔
کنبے کے ذرائع نے بتا یا کہ نماز جنازہ اور تدفین کل بعد نماز جمعہ ڈیڑھ بجے قبرستان مہدیان ، میردرد روڈ پر عمل میں آئے گی۔ سعید سہروردی نے الٰہ آباد یونیورسٹی سے معاشیات میں ایم اے کیا تھا اور 1960میں دہلی آمد کے بعد بعض سفارت خانوں میں ملازمت کی تھی۔ وہ ایک درجن سے زیادہ کتابوں کے مصنف تھے۔
انہیں انگریزی زبان پر مکمل دسترس حاصل تھی اور ترجمہ نگاری میں خاص مہارت رکھتے تھے۔ انہوں نے مشہور انگریزی کتاب ’آدھی رات کی آزادی‘ کا اردو ترجمہ کیا تھا۔
ماہر معاشیات ، معروف صحافی ، ادیب اور شاعر سعید سہروردی کا انتقال
اردو میں اقتصادی مسائل پر ان کی تصنیف اپنے موضوع پر ایک منفرد اور اکلوتی کتاب ہے۔ شاعری کے علاوہ ان کی طنزیہ تحریروں کا ایک مجموعہ ’چوہے کے خطوط بلی کے نام‘ شائع ہوا تھا۔ افسانوں کے دومجموعے ’لکیریں اور خاکے‘ اور ’کچھ پھول کچھ پتھر‘ شائع ہوئے تھے۔ان کی نظموں کا مجموعہ ’سلگتا صندل‘ اور قطعات کے دومجموعے ’پنکھڑیاں اور سنگ ریزے‘ بھی شائع ہوچکے ہیں۔ مرحوم نے ادارہ شمع کے تحت شائع ہونے والے ماہنامہ ’شبستاں‘ کے معاون مدیر کے طورپر یاد گار فیض نمبر بھی مرتب کیا تھا۔ وہ طویل عرصے تک روزنامہ قومی آواز ، راشٹریہ سہارا، خبریں، میرا وطن اور ہفت روزہ ’خبردار‘ کے لئے کالم لکھتے رہے۔ انہوں نے سماچار بھارتی کے اردو مدیر کے طورپر بھی کام کیا تھا ۔
انہیں 2003میں دہلی اردو اکادمی نے ایوارڈ برائے صحافت سے نوازا تھا۔ غالب انسٹی ٹیوٹ سے1973سے 1978تک وابستگی کے دوران انہوں نے آڈیٹوریم ، لائبریری اور میوزیم کی تعمیر وتشکیل میں اہم کردار ادا کیا تھا۔ ان کی نماز جنازہ کل بعد نماز جمعہ ڈیڑھ بجے قبرستان مہدیان ، میردرد روڈ پر عمل میں آئے گی۔ ان کے انتقال پر اردو کے صحافتی حلقوں نے گہرے صدمے کا اظہار کیا ہے۔ آل انڈیا اردوایڈیٹرس کانفرنس کے صدر م۔ افضل، سکریٹری معصوم مرادآبادی ، خازن مودودصدیقی اور مرحوم کے دیرینہ رفیق عابد انیس نے ان کے سانحہ ارتحال کو اردو ادب اور صحافت کا ناقابل تلافی نقصان قرار دیا۔