سری نگر:وزیر اعظم نریندر مودی کی جانب سے سابق وزیراعظم اٹل بہاری واجپائی کے اصول ‘انسانیت، جمہوریت اور کشمیریت’ کو دہرائے جانے کے بعد بھی وادی کی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں آئی اور کرفیو، پابندیوں اور ہڑتال کے باعث بدھ کو مسلسل 33 ویں روز بھی معمول کی زندگی مفلوج رہی۔وادی کے اطراف واکناف سے احتجاجی مظاہروں کی اطلاعات موصول ہونے کا سلسلہ بدستور جاری ہیں۔ وادی میں 8 جولائی کو حزب المجاہدین کمانڈر برہان وانی کی ہلاکت کے بعد بھڑک اٹھنے والی احتجاجی لہر میں تاحال 57 عام شہری ہلاک جبکہ 4 ہزار دیگر زخمی ہوگئے ہیں۔ اس کے علاوہ ریاستی پولیس کے دو اہلکار ہلاک جبکہ جموں وکشمیر اور مختلف دیگر حفاظتی دستوں کے 3500 اہلکار زخمی ہوگئے ہیں۔سرکاری ذرائع نے یو این آئی کو بتایا کہ سری نگر کے شہرخاص، ڈاون ٹاون اور بتہ مالو اور جنوبی کشمیر کے قصبہ اننت ناگ میں کرفیو کا نفاذ بدستور جاری ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ وادی کے دیگر حصوں میں دفعہ 144 سی آر پی سی کے تحت چار یا اس سے زیادہ افراد کے ایک جگہ جمع ہونے پر پابندی بدستور جاری رکھی گئی ہے ۔
قصبہ پلوامہ اور جنوبی کشمیر کے کچھ دیگر قصبوں کے رہائشیوں نے الزام عائد کیا کہ سیکورٹی فورسز اہلکار لوگوں کو اپنے گھروں سے باہر آنے کی اجازت نہیں دے رہے ہیں۔سری نگر کے بتہ مالو کے اندرونی علاقوں میں رہائش پذیر لوگ بدستور اپنے گھروں تک ہی محدود ہیں۔ بتہ مالو سے ملحقہ ٹینگ پورہ میں بدھ کے روز سینکڑوں کی تعداد میں لوگوں نے ایک سینئر پولیس افسر کے خلاف فوری کاروائی کرنے کا مطالبہ کیا جس پر ایک مقامی نوجوان کے قتل کا الزام ہے ۔احتجاجیوں نے اس موقعہ پر سیکورٹی فورسز کے خلاف اور آزادی کے حق میں نعرے بازی کی۔ دوسری جانب سری نگر کے سیول لائنز میں امن وامان کی صورتحال کو برقرار رکھنے اور احتجاجی مظاہروں کو روکنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری جمعیت بدستور تعینات رکھی گئی ہے ۔
کرفیو زدہ قصبہ اننت ناگ میں کرفیو کو سختی کے ساتھ نافذ کرنے کے لئے سیکورٹی فورسز کی بھاری نفری تعینات رکھی گئی ہے ۔ تاہم ریاستی حکومت نے وادی کو بیرون دنیا سے جوڑنے والی 300 کلو میٹر طویل سری نگر جموں قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی بغیر رکاوٹ آواجاہی ممکن بنانے کے لئے اس پر فوج تعینات کردی ہے ۔ قومی شاہراہ پر فوجی کی تعیناتی کی یہ پیش رفت شمالی کمان کے فوجی سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ڈی ایس ہوڈا کی ریاستی وزیر اعلیٰ محبوبہ مفتی کے ساتھ میٹنگ کے بعد ہوئی۔ میٹنگ کے دوران جنرل ہوڈا نے محترمہ مفتی کو وادی میں امن وامان کی بحالی میں ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کرائی تھی۔ ایک رپورٹ کے مطابق قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی بغیر رکاوٹ آمدورفت کو ممکن بنانے کے لئے فوج کی تعیناتی کا معاملہ میٹنگ میں زیر بحث آیا تھا۔ دونوں جنرل ہوڈا اور محترمہ مفتی نے محسوس کیا تھا کہ قومی شاہراہ پر گاڑیوں کی چوبیسوں گھنٹے آمدورفت ممکن بنانا اہم تھا۔
کشمیری علیحدگی پسند قیادت سید علی گیلانی، میرواعظ مولوی عمر فاروق اور محمد یاسین ملک نے وادی میں جاری ہڑتال میں 12 اگست تک توسیع کا اعلان کر رکھا ہے ۔ کسی بھی احتجاجی مظاہرے کی قیادت کرنے سے روکنے کے لئے بیشتر علیحدگی پسند لیڈران کو یا تو اپنے گھروں میں نظر بند رکھا گیا ہے ، یا پولیس تھانوں میں مقید رکھا گیا ہے ۔کشیدگی کے پیش نظر وادی میں موبائیل انٹرنیٹ اور پری پیڈ موبائیل فون سروس کو بدستور معطل رکھا گیا ہے ۔ وادی میں آج مسلسل 33 ویں روز بھی مکمل ہڑتال رہی۔ وادی کے اطراف واکناف میں دکانیں اور تجارتی مراکز گذشتہ 33 دنوں سے مسلسل بند ہیں جبکہ سڑکوں پر گاڑیوں کی آواجاہی بھی معطل ہے ۔تاہم وادی کے کچھ علاقوں میں صبح اور شام کے وقت نجی گاڑیاں چلتی ہوئی نظر آتی ہیں۔ وادی میں تقریباً تمام تعلیمی ادارے بھی گذشتہ ایک ماہ سے بند پڑے ہیں جبکہ حکومتی کام کاج مفلوج پڑا ہے ۔ شمالی کشمیر کے ضلع بانڈی پورہ کے رہائشیوں نے سیکورٹی فورسز کی مبینہ زیادتیوں کے خلاف بدھ کو شدید احتجاج کیا۔
ایک رپورٹ کے مطابق کھنوسہ بانڈی پورہ کے رہائشی آزادی کے حق میں اور سیکورٹی فورسز کے خلاف نعرے بازی کرتے ہوئے بانڈی پورہ سوپور شاہراہ پر آگئے اور مبینہ زیادتیوں میں ملوث سیکورٹی فورس اہلکاروں کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کرنے لگے ۔ احتجاجیوں نے الزام عائد کیا کہ سیکورٹی فورسز نے گذشتہ نصف شب کو گھروں میں داخل ہوکر مکینوں کی مار پیٹ کی۔ جنوبی کشمیر سے موصولہ ایک رپورٹ کے مطابق ضلع کولگام کے قیموہ میں ایک بڑی ریلی منعقد ہوئی جس میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں نے شرکت کی۔ مذکورہ رپورٹ کے مطابق اس ریلی سے حریت (گ) چیئرمین مسٹر گیلانی نے بذریعہ ٹیلی فون خطاب کیا۔ مذکورہ ریلی میں کشمیر کی آزادی کے حق میں اور سیکورٹی فورسز کے خلاف شدید نعرے بازی کی گئی۔ وزیر اعظم مودی نے منگل کو مدھیہ پردیش کے ضلع علی راج پور میں ایک تقریب کے دوران سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اس وقت ‘انسانیت، کشمیریت، جمہوریت’ کی بات کی تھی، ہم بھی اسی راستے پر چل رہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ محبوبہ مفتی کی قیادت میں جموں وکشمیر حکومت یا مرکزی حکومت تمام مسائل کا ترقی کے ذریعے حل تلاش کررہی ہے ۔ تاہم وادی کی تقریباً تمام علیحدگی پسند اور مین اسٹریم جماعتوں نے وزیراعظم کے بیان کو مسترد کیا۔جموں وکشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ اور نیشنل کانفرنس کے کارگزار صدر عمر عبداللہ نے اپنے ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ ترقی کو قبول کرنے کی غیرآمادگی ہی مسئلے کی اصل جڑ ہے ۔ بزرگ علیحدگی پسند رہنما اور حریت کانفرنس (گ) چیئرمین سید علی گیلانی نے اپنے ردعمل میں کہا ‘جموں کشمیر کا مسئلہ نہ تو اقتصادی ہے اور نہ ہی جموں کشمیر کے لوگ کسی اقتصادی پیکیج کے لیے تحریک چلارہے ہیں۔ ہم بھارتی فوجی قبضے کے خلاف جنگِ آزادی لڑرہے ہیں’۔انہوں نے الزام عائد کیا کہ ہندوستان کی ہمیشہ یہ کوشش رہی ہے کہ وہ جموں کشمیر کے قدرتی ذارئع اور وسائل پر قبضہ کرکے ہمیں دانے دانے کا محتاج بنانا چاہتا ہے ۔
مسٹر گیلانی نے کہا ‘ ہماری ریاست آپ کی بہت ساری ریاستوں سے اچھی اقتصادی پوزیشن میں ہے ۔ ہمارے جوانوں کی قربانی اقتصادی خوشحالی کے لیے نہیں بلکہ صرف اور صرف آزادی کے لیے ہے ‘۔میرواعظ مولوی عمر فاروق کی قیادت والی حریت کانفرنس مسٹر مودی کے بیان کے ردعمل میں بتایا کہ جموں کشمیر کا مسئلہ بنیادی طور ایک سیاسی اور انسانی مسئلہ ہونے کے ساتھ ساتھ کشمیری عوام کے جذبات اور احساسات کا مسئلہ ہے جس کو اقوام متحدہ کی قراردادوں پر عمل آوری یا ہندوستان، پاکستان اور کشمیری عوام کے درمیان بامعنی سہ فریقی مذاکرات کے ذریعے ہی حل کیا جاسکتا ہے ۔حریت کانفرنس نے کہا کہ مسئلہ کشمیر کوئی اقتصادی مراعات ، ترقی یا مالی پیکیجوں کا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس مسئلے کو کشمیری عوام کی رائے اور منشاء کے مطابق حل کرنے سے ہی کشمیر سمیت پورے جنوبی ایشائی خطے میں امن و استحقام کا خواب شرمندہ تعبیرہوسکتا ہے ۔