ہالینڈ۔ ہالینڈ کے شہر روٹرڈیم میں ترکی کے قونصل خانے کے باہر صدر رجب طیب اردوغان کے حامیوں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے مظاہرے کو ڈچ پولیس نے منتشر کر دیا ہے۔ یہ کارروائی ایک ترک وزیر کو قونصل خانے میں داخل نہ ہونے دینے کے بعد عمل میں آئی۔ پولیس نے مظاہرین کے خلاف منظم انداز میں گھوڑوں پر سوار ہوکر کارروائی کی۔ یہ مظاہرین دونوں ممالک کے درمیان سفارتی تنازعے میں اضافے کے بعد وہاں جمع ہوئے تھے۔ اطلاعات کے مطابق مظاہرین نے پولیس کی گاڑیوں کو گھیر لیا تھا اور ان پر بوتلیں پھینک رہے تھے۔
ترکی میں خاندان اور سماجی منصوبوں کی وزیر فاطمہ بتول سایان کایا سنیچر کو سڑک کے راستے روٹرڈیم پہنچیں تھیں تاکہ وہ ہالینڈ میں رہنے والے ترکیوں کے ووٹ کو حاصل کر سکیں۔ لیکن جب فاطمہ بتول وہاں پہنچیں تو ہالینڈ کے حکام نے انھیں قونصل خانے میں داخلے کی اجازت نہیں دی جس کے بعد ٹویٹ کا ایک دور شروع ہو گيا جس میں غم و غصے کا اظہار تھا۔
روٹرڈیم کے میئر نے اتوار کی صبح بتایا کہ اس کے بعد فاطمہ بتول کایا ہالینڈ سے چلی گئی ہیں۔ خیال رہے کہ آئندہ ماہ 16 اپریل کو ترکی میں صدر اردوغان کے اختیارات میں اضافہ کے لیے ایک ریفرینڈم کیا جا رہا ہے۔ اس کے تحت ترکی کو پارلیمانی طرز حکومت کے بجائے امریکہ کی طرح صدارتی طرز حکومت میں تبدیل کرنے کے بارے میں فیصلہ کیا جائے گا۔
اگر یہ ریفرینڈم کامیاب رہتا ہے تو صدر کو مزید اختیارات حاصل ہو جائیں گے جس کے تحت وہ وزیر نامزد کر سکیں گے، بجٹ تیار کر سکیں گے، سینیئر ججز کی تقرری کر سکیں گے اور بعض قوانین وضع کر سکیں گے۔ اس کے تحت صدر ملک میں ایمرجنسی نافذ کر سکتے ہیں اور پارلیمان کو برخاست کر سکتے ہیں۔ ریفرینڈم کو کامیاب بنانے کے لیے انھیں اندرون اور بیرون ملک رہنے والے دونوں قسم کے ترکیوں کی حمایت حاصل کرنا ہوگی۔ خیال رہے کہ 55 لاکھ ترکی بیرون ملک رہتے ہیں جس میں سے 14 لاکھ اہل ووٹرز تو صرف جرمنی میں رہتے ہیں اور ان سے حمایت حاصل کرنا انتہائی اہم قرار دیا جا رہا ہے۔
اس لیے جرمنی آسٹریا اور ہالینڈ سمیت ان ممالک میں مختلف قسم کی ریلیوں کا انعقاد کیا جا رہا ہے جہاں ترکیوں کی بڑی تعداد موجود ہے۔ بہر حال سکیورٹی وجوہات کی بنا پر بہت سے ممالک میں ریلیوں پر پابندی لگائی گئی ہے۔ آسٹریا کے وزیر خارجہ سیبسٹیئن کرز نے کہا کہ صدر اردوغان کو وہاں ریلیاں کرنے کی اجازت نہیں دی جائے گی کیونکہ اس سے اختلاف بڑھے گا اور ہم آہنگی کو دھچکہ لگے گا۔ بہت سے یورپی ممالک گذشتہ سال ناکام بغاوت کے بعد ترکی کے رویے سے بھی نالاں ہیں جس میں ہزاروں لوگوں کو حراست میں لیا گیا اور لاکھوں کو نوکریوں سے برخاست کر دیا گیا۔