نئی دہلی : سہارنپور میں تشدد پر مرکزی وزارت داخلہ نے تفصیلی رپورٹ طلب کی ہے۔ سہارنپور نسلی تشدد کی آگ میں جھلس رہا ہے ، مگر اتر پردیش پولیس نے مرکزی وزارت داخلہ کو رپورٹ بھیجی کہ حالات معمول پر ہیں۔ اس رپورٹ سے غیر مطمئن وزارت نے ریاست کے ڈی جی پی سے حالات اتنے بے قابو ہونے کی وجوہات کی تفصیلی رپورٹ بھیجنے کیلئے کہا ہے۔ وزارت کے اندازہ کے مطابق اتر پردیش کے کئی علاقوں میں پولیس حالات کو قابو کرنے میں ناکام رہی ہے، یہی وجہ ہے کہ وہاں ایک ماہ میں تین مرتبہ پرتشدد واقعات رونما ہوئے۔
این ڈی ٹی وی انڈیا کی ایک خبر کے مطابق اس وقت حالات کو سنبھالا نہیں گیا، جب کہ پانچ مئی کو مہارانا پرتاپ کے مجسمے کو نصب کیا جانا تھا ۔ اسی وقت بات چیت کے ذریعہ اس معاملہ کو حل کیا جاسکتا تھا۔ لیکن اس وقت پولیس نے بیسک لیول آف پولیسنگ کے معیار پر عمل آوری نہیں کی ۔ پھر جب مہا پنچایت ہوئی تب بھی پولیس دونوں دھڑوں سے بات چیت کرنے میں ناکام نہیں رہی۔
افسر کے مطابق جب مایاوتی وہاں پہنچیں تو حالت مزید خراب ہو گئے۔ انہوں نے کہا کہ اگر بیسک لیول آف پولیسنگ صحیح رہیں ، تو سیاستدان کچھ بھی کر لیں ، حالات اتنے خراب نہیں ہوتے جیسے کہ سہارنپور میں ہوئے۔ دریں اثنا وزارت اس بات سے بھی فکر مند ہے کہ کہیں یہ تشدد باقی علاقوں میں نہ پھیل جائے۔ انٹیلی جنس بیورو نے اپنی رپورٹ میں وزارت کو لکھا ہے کہ میرٹھ کے اندرونی علاقوں ، دیوبند اور نكل میں کافی کشیدہ صورت حال ہے۔
اس دوران ڈی جی پی سلكھان سنگھ نے وزارت کو ایک ابتدائی رپورٹ بھیج دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق پانچ مئی کو تنازع میں 35 سال کے سمت راجپوت کی جان چلی گئی اور 15 لوگ زخمی ہوئے، جبکہ پولیس نے 9 ایف آئی آر درج کیں اور 17 ملزمان کو گرفتار کیا۔ جانچ میں سامنے آیا کہ دو فرقوں میں ہوئے تشدد میں 20 دلتوں کے گھر جلائے گئے۔