شام میں صدر بشارالاسد کی حکومت کے عمل داری والے چار علاقوں میں پے در پے بم دھماکوں میں اڑتالیس افراد ہلاک اور دسیوں زخمی ہوگئے ہیں۔داعش نے ان بم حملوں کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا ہے۔
برطانیہ میں قائم شامی رصد گاہ برائے انسانی حقوق نے جنگ زدہ ملک میں موجود اپنے نیٹ ورک کے حوالے سے ہلاکتوں کی تعداد سینتالیس بتائی ہے۔شام کی سرکاری خبررساں ایجنسی سانا نے اطلاع دی ہے کہ ساحلی شہر طرطوس ،وسطی شہر حمص ،دارالحکومت دمشق کے نواحی علاقے اور شمال مشرقی شہر الحسکہ میں سوموار کے روز یہ بم دھماکے ہوئے ہیں۔
طرطوس میں حملہ آوروں نے بین الاقوامی ساحلی شاہراہ پر ایک پل پر دو بم پھوڑے ہیں جن کے نتیجے میں تیس افراد ہلاک اور چالیس سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔شہر کے نزدیک واقع آرزونہ پل پر پہلے ایک کار بم دھماکا کیا گیا اور اس حملے کے بعد ایک بمبار نے وہاں جمع ہونے والے افراد کے درمیان خود کو دھماکے سے اڑا دیا۔
رصدگاہ کا کہنا ہے کہ ان دونوں بم دھماکوں میں شامی فوج کے ایک کرنل سمیت پینتیس افراد ہلاک اور دسیوں زخمی ہوئے ہیں۔طرطوس صدر بشارالاسد کے حامیوں کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے اور یہیں ان کے پشتی بان ملک روس کا ایک بحری اڈا ہے۔
ادھر وسطی صوبے حمص کے دارالحکومت اور اسی نام کے شہر میں ایک فوجی چیک پوائنٹ پر بارود سے بھری ایک کار سے حملہ کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں چار فوجی ہلاک اور چار زخمی ہوگئے ہیں۔ حمص شام کا تیسرا بڑا شہر ہے اور اس کے بڑے حصے پر شامی حکومت کا کنٹرول ہے جبکہ صرف ایک علاقے پر شامی باغیوں کا قبضہ برقرار ہے۔بم دھماکا حکومت کے کنٹرول والے علاقے باب التدمر میں ہوا ہے۔
شمال مشرقی شہر الحسکہ میں ایک موٹر سائیکل پر سوار خودکش بمبار نے حملہ کرکے کرد سکیورٹی فورسز کے چھے اہلکاروں اور دو شہریوں کو ہلاک کردیا ہے۔اس شہر میں شامی فورسز اور کرد ملیشیا دونوں کا اپنے اپنے زیر نگیں علاقوں پر کنٹرول ہے۔دارالحکومت دمشق کے نزدیک الصبورہ روڈ پر ایک بم دھماکے میں ایک شخص ہلاک ہوگیا ہے۔
اعش نے ان پے در پے بم دھماکوں کی ذمے داری قبول کر لی ہے۔اس سے وابستہ اعماق نیوز ایجنسی نے ایک بیان جاری کیا ہے جس میں کہا ہے کہ اس جنگجو گروپ کا ان پے در پے خودکش بم دھماکوں میں ہاتھ کارفرما ہے۔ان حملوں سے ایک روز قبل ہی ترک فورسز اور ان کے اتحادی شامی باغیوں نے داعش کو ترکی کی سرحد کے ساتھ واقع شامی علاقے سے بے دخل کردیا تھا۔