لکھنو؛ مثل مشہور ہے دیگ سے زیادہ چمچہ گرم،سرکاری افسران اپنے وزیر اعلی کو خوش کرنے کے لئے ایسے ایسے ہتکنڈے اختیار کر رہے ہیں جس یوگی جی کی ہی ساکھ میں بٹا لگ رہا ہے۔
آج ریاستی راجدھانی کے زندہ عجائب گھر نواب واجد علی شاہ میں پچاس سے زیادہ با حجاب خواتین کو اندر داخلے سے گھنٹوں روکے دکھا گیا جو اپنی ٹیچروں کے ساتھ ڈھائی سو کلو میٹر دور سے گھومنے آئی تھیں۔
الہ آباد سے لکھنؤ ج گھومنے آئے ایک مدرسے کی تقریبا 50 طالبات کو لکھنؤ ج کے گیٹ پر گھنٹوں کھڑا رہنا پڑا. مدرسہ آپریٹر سید احسان احمد نے بتایا کہ ہم لوگ صبح ہی لکھنؤ ج پہنچ گئے تھے. ہم یہاں ایک سفر پر آئے ہیں. لیکن جب ہم ٹکٹ ونڈو پہنچے تو ہم نے ٹکٹ سے انکار کر دیا. وجہ سے پوچھا جب کوئی درست جواب دیا گیا تھا. اس کے بعد جوبا انتظامیہ سے رابطہ کرنے کی کوشش کی لیکن کامیابی حاصل نہیں ہوئی.
نواب واجد علی شاہ عجائب گھر کے پھاٹک پر ہی ان خواتین کو کئی گھنٹے روکے رکھا گیا اور انکو ٹکٹ نہیں دیا گیا۔کھڑکی پر بیٹھے بابو نے صاف بات سے گریز کیا اور طلبات کو پھاٹک کے باہر بلا وجہ دیر تک انتظار کرایا گیا۔کئی گھنٹ کی بحث کے بعد با حجاب خواتین کو لکھنو زو کے انر جانے کی اجازت دی گئی مگر آخر تک اس تعصب کی وجہ نہیں بتائی گئی۔ ایک صحافی نے جب ادارے کے ڈائریکٹر سے سوال کیا تو انہون نے اس واقعہ کی لیپا پوتی کرتے ہوئے کہا کہ کچھ تکنیکی وجوہ کی بنا پر ایسا کیا گیا تھا۔بہرحال انہوں نے مبینہ تکنیکی وجہ کو بتانے سے گریز کیا۔
عینی شاہدین کا کہان ہے کہ مدرسہ کی ان طالبات کی“ خطا“ صرف یہ تھی کہ وہ با حجاب تھیں اور ان پر عجائب گھر انتظامیہ کو کسی طرح کا شک تھا۔لیکن عام طور سے اس بہانے پر کسی کو یقین نہیں آیا،کافی دیر کی جد و جہد کے بعد سیاہ برقہ پوش خواتین کو “بھگوا دھاری ذہنیت والے ملازمین نے اندر جانے کی اجازت دی۔