سان فرانسسکو۔ سفری پابندی معاملہ میں افریقہ میں پھنسی 12 سالہ یمنی بچی بالآخر اپنے اہل خانہ سے جا مل ہی گئی۔ سات مسلم ملکوں کے شہریوں کی امریکہ آمد پر پابندی سے متعلق صدر ڈونالڈ ٹرمپ کے ایگزیکیٹیو آرڈر کی مار ایک بارہ سالہ یمنی بچی کو بھی جھلینی پڑی ہے۔ جس روز ٹرمپ نے اس آرڈر پر دستخط کیا اس دن وہ اپنے والد کے ہمراہ ایک افریقی ملک سے امریکہ آنے والی تھی ۔ لیکن اس نئے آرڈر نے اس کے لئے رکاوٹ پیدا کر دی۔ تاہم، والد کی سخت جدو جہد کے بعد افریقہ میں پھنسی یہ بچی بالآخر سان فرانسسکو میں اپنے اہل خانہ سے واپس جا ملی ہے۔
ایمان علی نام کی یہ بچی اور اس کے والد احمد علی ایک ساتھ امریکی ائیرپورٹ پہنچے جہاں کئی نامہ نگاروں کے ساتھ ساتھ اس کی بڑی بہن اور دیگر رشتہ داروں نے اس کا والہانہ خیر مقدم کیا۔ بارہ سالہ بچی اپنی بڑی بہن سلمیٰ کو دیکھ کر اس سے گلے لگی اور دونوں نے ایک دوسرے کو بوسہ دیا۔
نیوز ۱۸ کے مطابق، ایمان اور اس کے والد مشرقی افریقی ملک دجیبوتی میں گزشتہ پیر سے ہی پھنسے ہوئے تھے۔ کیونکہ وہاں کی انتظامیہ نے ایمان کو امریکہ جانے والی جہاز پر سوار ہونے سے اس لئے منع کر دیا تھا کیونکہ وہ یمن کی تھی۔ یمن ان سات مسلم ملکوں میں سے ایک ہے جہاں کے شہریوں پر امریکہ آمد پرپابندی ہے۔ حالانکہ جمعہ کے روز سییٹل کے ایک وفاقی جج نے اس پابندی پر عارضی روک لگا دی ہے۔
واضح رہے کہ ایمان کے والد، ماں اور اس کی بڑی بہن امریکی شہری ہیں لیکن ایمان جس کی پیدائش یمن میں ہوئی ہے، اسے ابھی تک امریکہ کی شہریت نہیں ملی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ٹرمپ کے عائد کردہ سفری پابندی کی مار اسے جھیلنی پڑی ۔ ایمان کے وکیل کا کہنا تھا کہ امریکہ آنے کے بعد اسے شہریت مل جائے گی۔
ایمان کے والد نے کہا کہ گزشتہ پانچ برسوں سے انہوں نے ایمان کے ویزا کے لئے کوششیں کی تھیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اب یہاں اپنے پورے اہل خانہ کا ساتھ پا کر وہ بہت خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ احمد علی نے ٹرمپ کے نئے فرمان کی نکتہ چینی کرتے ہوئے کہا کہ دنیا میں کچھ لوگ برے تو ہو سکتے ہیں لیکن سبھی لوگ برے ہو جائیں ایسا نہیں ہو سکتا۔