خانہ کعبہ کی تولیت اور خدمت کا شرف “بنو شیبہ” خاندان کو حاصل ہے۔ تقریبا 16 صدیوں سے زیادہ عرصے سے کعبے کی تولیت قریش میں قصی بن کلاب بن مرہ کی اولاد کے پاس ہے۔ ان ہی کی نسل سے آل الشیبی خاندان کا تعلق ہے جو اس وقت کعبے کا متولی ہے۔ یہ وہ ہی لوگ ہیں جن کو رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے فتح مکہ کے بعد کعبے کی کلید واپس لوٹائی تھی۔
کعبے کی تولیت ایک پرانا پیشہ ہے۔ اس سے مراد بیت اللہ کی دیکھ بھال، اس کے کھولنے اور بند کرنے ، اس کی صفائی اور غسل اور اس کے غلاف کی مرمت سے متعلق امور سر انجام دینا ہے۔ بیت اللہ کو ہر سال دو مرتبہ یعنی یکم شعبان اور 15 محرم کو اندر سے غسل دیا جاتا ہے۔ غسل میں آب زمزم اور عرق گلاب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ چاروں دیواروں کو پانی اور پھر عطر سے پونچھا جاتا ہے۔ غسل دیے جانے کے بعد بیت اللہ کے اندر نماز ادا کی جاتی ہے۔
کچھ عرصہ قبل ایک وڈیو کلپ گردش میں آیا تھا جس میں بیت اللہ کے سینئر متولی شیخ صالح الشیبی کعبے کی کلید، باب توبہ کی کلید اور مقام ابراہیم کی کلید پیش کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ سعودی مؤرخ اور مجلس شوری کے رکن ڈاکٹر محمد آل زلفہ نے العربیہ ڈاٹ نیٹ سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ “کعبے کے دروازے کی کلید تاریخی اور مذہبی اہمیت کی حامل ہے۔ اس کلید کے لیے سبز رنگ کا ایک خصوصی بٹوہ ہے جس پر یہ آیت تحریر ہے “إن الله يأمركم أن تؤدوا الأمانات إلى أهلها”.
فولاد سے بنی اس کلید کی لمبائی 35 سینٹی میٹر کے قریب ہے۔ مختلف اسلامی ادوار کے دوران اس کلید کو کئی مرتبہ تبدیل کیا گیا۔ عبدالقادر الشیبی نے 2013ء کے اواخر میں مکہ کے گورنر سے کعبے کی کلید حاصل کی تھی۔ اس وقت کعبے کا قُفل اور کنجی دونوں نیکل سے بنی ہوئی ہیں جن پر 18 قیراط کا سونا چڑھا ہوا ہے۔
ڈاکٹر آل زلفہ کے مطابق کعبے کی کلید کی صورت بدلتی رہی ہے۔ ترکی میں واقع اسلامی عجائب خانے کے اندر عثمانی دور کے وقت سے کعبے کی 48 کنجیاں موجود ہیں۔ ریاض کے عجائب خانے میں بھی کعبے کی دو کنجیاں رکھی گئی ہیں۔
آل زلفہ نے بتایا کہ “خلیل اللہ ابراہیم علیہ السلام کی جانب سے خانہ کعبہ کی تعمیر کے وقت سے تولیت ان کے صاحب زادے اسماعیل علیہ السلام کے پاس تھی۔ بعد ازاں جرہم اور خزاعہ قبیلوں نے بالترتیب اس پر قبضہ کر لیا۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم کے چوتھے جد امجد قصی بن کلاب نے ان قبیلوں سے کعبے کی تولیت واپس لے لی۔ قصی کی وفات کے بعد تولیت ان کے سب سے بڑے بیٹے عبد الدار کے ہاتھوں میں آ گئی۔ جاہلیت اور اسلام کے ادوار میں تولیت اسی خاندان کے پاس رہی۔ ابھی تک تولیت کی ذمے داری ان ہی کی اولاد کے پاس ہے یہاں تک کہ یہ عثمان بن طلحہ بن ابی طلحہ بن عبد الله بن العزى بن عثمان بن عبد الدار بن قصی کے پاس پہنچ گئی۔ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم نے ان کو کعبے کی کنجیاں واپس لوٹائیں۔
آل زلفہ کے مطابق کعبے کے دروازے کی کلید ہمیشہ سب سے عمر رسیدہ خادم کے پاس رہی ہے جو “سادن” یعنی متولی کہلاتا ہے۔ کعبے کا دروازہ کھولتے وقت سادن تمام سینئر متولیوں کو اکٹھا کرنے کی کوشش کرتا ہے تا کہ وہ حکمراں اور شہزادوں کے ساتھ مل کر کعبے کو غسل دیں۔