نئی دہلی۔ پارلیمنٹ میں اقلیتی وزیر کا الور میں گئورکشکوں کے ذریعہ پٹائی کی خبرسے لا علمی کا اظہار۔ راجستھان کے ضلع الور میں بہروڑ علاقے میں گئورکشکوں کے ذریعہ ایک مسلمان کی مبینہ طور پر پٹائی کے بعد اس کی موت کے سلسلے میں اپوزیشن نے راجیہ سبھا میں زبردست ہنگامہ کیا جس کے سبب تقریباً آدھے گھنٹے تک شور و غل ہوتا رہا۔ پارلیمانی امور کے وزیر مختار عباس نقوی نے ایسے کسی واقعہ کے ہونے سے انکار کیا اور اخبارات کی رپورٹ کو غلط قرار دیا۔ اس سے اپوزیشن پارٹیاں مزید مشتعل ہوگئیں اور شور مچانے لگیں تو ڈپٹی چیئرمین پی جے کورئین نے مسٹر نقوی کو کہا کہ وہ اس واقعہ سے وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ کو آگاہ کرائیں اور اس سلسلے میں ایک رپورٹ طلب کریں تاکہ اس واقعہ کی صداقت کا پتہ چل سکے۔ ایوان کی کارروائی شروع ہونے پر پہلے سماج وادی پارٹی کے نریش اگروال نے سوشل میڈیا پر ممبران پارلیمنٹ کی شبیہ بگڑنے کا معاملہ اٹھایا۔ اس کے بعد کانگریس کے مدھوسودن مستری نے الور ضلع میں ایک مسلمان کی گئورکشکوں کے ذریعہ مبینہ طور پر پٹائی سے موت کا معاملہ اٹھانے کوشش کی لیکن مسٹر کوریئن نے انہیں اس معاملے کو اٹھانے کی اجازت نہیں دی۔
مسٹر کورئین نے کہاکہ اس معاملے پر ضابطہ 267 کے تحت چار لوگوں کو نوٹس دیا ہے لیکن وہ نوٹس منظور نہیں ہوا ہے اور مسٹر مستری کو وقفہ صفر میں اس معاملے کو اٹھانے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس لئے وہ وقفہ صفر میں ہی اس معاملے کو اٹھائیں لیکن مسٹر مستری نہ مانے۔ وہ بار۔بار اس معاملے کو اٹھانے لگے۔ اس دوران ایوان میں اپوزیشن کے لیڈر غلام نبی آزاد نے کہا کہ مسٹر مستری کے ضابطہ 267 کے تحت دیئے گئے نوٹس کو یا تو منظور کیا جائے یا پھر چھ سات لوگوں کو اس معاملے پر بولنے کی اجازت دی جائے۔کانگریس کے دگ وجے سنگھ اور دیگر اپوزیشن اراکین نے بھی مسٹر کوریئن سے مسٹر مستری کو اپنی بات کہنے کی اجازت دینے کی اپیل کی تب مسٹر کوریئن نے اراکین کی اپیل کے پیش نظر مسٹر مستری کو بولنے کی اجازت دی۔ مسٹر مستری نے کہاکہ راجستھان میں گئورکشکوں کی تنظیم ٹرکوں کو روک روک کر اس کی تلاشی لے رہی ہے، جو غیرقانونی ہے۔ وہ یہ اختیار اپنے ہاتھوں میں کیسے لے سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا کہ گئورکشک تنظیم نے تو ٹرک کے ڈرائیور کو تو چھوڑ دیا کیوں کہ وہ ہندو تھا لیکن میوات کی ڈیئری سے گائے لے کر آ رہے مسلمانوں کی بے رحمی سے پٹائی کہ جبکہ انہوں نے گائے خریدنے کی رسید بھی دکھائی۔ انہوں نے کہا کہ نہ صرف راجستھان بلکہ گجرات، مدھیہ پردیش اور اب اترپردیش میں بھی اس طرح کے واقعات پیش آ رہے ہیں۔ اس سلسلے میں ہنگامہ کے دوران دونوں فریقوں کے مابین کافی تکرار ہوئی۔ دریں اثنا مسٹر نقوی نے کہاکہ یہ ایک حساس معاملہ ہے لیکن ایسا کوئی واقعہ پیش نہیں آیا۔ میڈیا نے جو خبر دی اس کی ریاستی حکومت نے تردید کی ہے۔ انہوں نے کہا ’ہم لوگ اس ایوان میں اس طرح ہنگامہ کرکے کیا پیغام دینا چاہ رہے ہیں کہ ہم گائے کو ذبح کرنے کی حمایت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہم اس طرح کی لاقانونیت کو منصفانہ قرار نہیں دے سکتے۔