نئی دہلی۔ علماء کونسل کے بعد دہلی کی جامع مسجد کے شاہی امام سید احمد بخاری کے ذریعہ مایاوتی اور ان کی پارٹی بی ایس پی کو حمایت دینے کے اعلان کے بعد اتر پردیش کی سیاست میں ووٹوں کے حساب میں تیزی سے تبدیلی ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ سیاسی ماہرین اس اقدام کو بی ایس پی کے لئے فائدہ مند اور ایس پی کانگریس اتحاد کے لئے نقصان دیکھ کر چل رہے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ علماء کونسل ہو یا احمد بخاری، یہ کہیں نہ کہیں اپنی قوم پر اثر ڈالتے ہیں۔
ای ٹی وی کے سیاسی ایڈیٹر منموہن رائے نے کہا کہ چاہے وہ علماء کونسل ہو یا احمد بخاری، ان کی مسلمانوں میں اچھی گرفت مانی جاتی ہے۔ یہ بھلے ہی اپنے لئے ووٹ حاصل نہ کر سکیں لیکن ان کے قدم اثر ضرور ڈالتے ہیں۔ ظاہر ہے ان کی بی ایس پی کو براہ راست حمایت دینے سے اسے کہیں نہ کہیں تھوڑا فائدہ ضرور ہوگا۔
چونکہ پہلے مرحلے میں مغربی اترپردیش کی ہی سیٹوں پر ووٹنگ ہونی ہے، وہاں مسلم ووٹر ایک اہم فیکٹر ہے۔ اس لئے یہ بیان اور بھی معنی رکھتا ہے۔ اس قدم سے ایس پی اور کانگریس کو کہیں نہ کہیں نقصان ہو سکتا ہے۔ احمد بخاری نے جمعرات کو اترپردیش اسمبلی انتخابات میں بہوجن سماج پارٹی (بی ایس پی) کو حمایت دینے کا اعلان کیا۔ انہوں نے کہا کہ سماج وادی پارٹی گزشتہ پانچ سال تک ریاست کے اقتدار میں رہی اور اس دوران مسلمانوں کا صرف استحصال ہوا اور ان کے ساتھ ناانصافی ہی ہوئی ہے، لہذا اس بار انتخابات میں وہ بی ایس پی کی حمایت کریں گے۔
بخاری نے اپنے حامیوں سے سماجوادی پارٹی کے خلاف ووٹ ڈالنے کی اپیل بھی کی ہے۔ بخاری نے اکھلیش حکومت سے پوچھا ہے کہ انہوں نے پانچ سال میں مسلمانوں کو کیا دیا۔ بخاری نے یوپی حکومت پر وعدہ خلافی کے الزام لگائے۔