لکھنؤ۔ یوپی اسمبلی انتخابات میں مندر، مسجد ، قبرستان ، برقعہ اور تین طلاق سمیت سبھی حربے استعمال کئے گئے۔ اترپردیش کا اسمبلی الیکشن اپنے آخری مرحلےمیں پہنچ چکا ہے، مگر اس دوران جس طریقے سے مرحلہ وار طور پر تعصب پسندی کا مظاہرہ کیا گیا ، وہ قابل تشویش ہے۔ یہ کہنا ہے متعدد سیاسی و سماجی لیڈروں کا۔
ان رہنماؤں کا کہنا ہے کہ جس طرح مندر، مسجد، قبرستان، برقع اورتین طلاق سمیت سبھی مذہبی حربے استعمال کیے گئے ، وہ صحت مند سیاست اورمعیاری جمہوریت کے لیے نیک فال نہیں ہیں ۔ ظاہر سی بات ہے کہ مذہبی معاملات کو سیاسی معاملہ بنانے پرسب سے زیادہ تنقید کا سامنا بی جے پی کو ہی کرنا پڑ رہا ہے ، جبکہ بی جے پی کا یہ دعوی ہے کہ اپوزیشن پارٹیاں بوکھلاہٹ میں اس پر یہ الزام عائد کررہی ہیں۔
یو پی میں 11 فروری سے شروع ہوئے اسمبلی الیکشن اب اپنے آخری مرحلہ میں ہے۔ 7 مرحلوں میں ہونے والے ان انتخابات میں جوں جوں سیاسی پارہ چڑھتا گیا، توں توں ترقیاتی نعروں کی جگہ طبقاتی نعروں کی گونج بڑھتی گئی ۔حد تو جب ہوگئی کہ مذہبی معاملات کو بھی سیاست کی دہلیز پراچھالا جانے لگا۔ سیاست کی اس روش کو مذہبی وسیاسی سطح پرتنقید کا سامنا بھی کرنا پڑ رہا ہے۔ مسلم دانشوروں کا کہنا ہے کہ حکومت کے اعلی عہدوں پر فائزافراد کی جانب سے فرقہ پرستی کی باتیں مزید تشویشناک ہیں۔
یوپی الیکشن میں کون کون سے ایشوز حاوی رہے ۔ بحث ابھی اس بات پر ہو رہی ہے۔ مگر11 مارچ کو جب نتائج سامنے آئیں گے ، تو یہ واضح ہو جائے گا کہ ریاست کے عوام نے کن ایشوزکوخاطرمیں لیا اور کن ایشوزکودرکنارکردیا ۔ یہ ایک ایسا موقع بھی ہوگا جب سیاسی جماعتوں کو انتخابی نتائج کی روشنی میں احتسابی مرحلے سے بھی گزرنا ہوگا۔