شام میں صدر اسد اور ان کے حواری جہاں اپنے عوام کی نسل کشی اور بدترین قتل عام میں کوشاں ہیں وہیں ایسے رضاکاروں کی بھی کوئی کمی نہیں جو اپنی جانوں پر کھیل پر وحشیانہ بمباری سے متاثرہ بچوں، خواتین اور زخمیوں کی جانیں بچانے کے لیے کوشاں ہیں۔ انہی انسان دوست لوگوں کے لیے پوری دنیا میں ہمدردی کے جذبات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔ یہاں تک کہ مغربی ذرائع ابلاغ کو بھی ان سفید ہیلمٹ والے کارکنوں کو نوبل انعام کا حق دار قرار دینے کے مطالبات کیے جانے لگے ہیں۔ شام میں حقیقی معنوں میں لوگوں کی زندگیاں بچانے میں سرگرم کارکنان ہی انعام کے حق دار ہیں۔
تباہ حال شام میں زندگیاں بچانے میں مصروف رضاکاروں اور کارکنوں کو امریکی ’ٹائمز‘ میگزین نے بھی شاندار خراج تحسین پیش کیا ہے۔ یہاں تک کہ امریکی جریدے نے بھی قرآن پاک کی سورہ المادہ کی آیت 32 کا حوالہ دیا ہے جس میں اللہ رب العزت کا فرمان ہے کہ “وَمَنْ أَحْيَاهَا فَكَأَنَّمَا أَحْيَا النَّاسَ جَمِيعاً”[ جس نے ایک زندگی بچائی گویا اس نے پوری انسانیت کو بچالیا]۔ اس آیت کا حوالہ دینے کے بعد امریکی جریدے نے اپنی رپورٹ میں شام کی بربادی کے ڈھیروں میں زندگی تلاش کرنے والے ان کارکنوں کی خدمات پر روشنی ڈالی ہے اور انہین دنیا کے عظیم لوگ قرار دیا ہے۔ رپورٹ میں لکھا ہے کہ شام اور روس کے جنگی طیارے موت بانٹے ہیں جب کہ سفید ہیلمٹ پہنے رضاکار اپنی جانوں کو خطرے میں ڈال کر زندگیاں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
میگزین نے شام میں تباہی وبربادی کی تصویر کشی کے لیے طویل رپورٹ شائع کی ہے۔ رپورٹ میں دل دہلا دینے والے واقعات اور امدادی کارکنوں کو درپیش مشکلات کا بھی تفصیلی احوال بیان کیا گیا ہے۔ عمران نامی اس شامی بچے کا بھی تذکرہ شامل ہے جس کی خون میں لت پت تصویر نے چند ہفتے قبل پوری دنیا کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ یہاں تک اس رپورٹ میں امدادی کارکنان کی تعداد کا بھی اندازہ لگایا گیا ہے اور ان کی خدمات کو خراج تحسین پیش کرتے ہوئے انسانوں کے لیے مدد کے فرشتے قرار دیا ہے۔
امدادی کارکن 31 سالہ اسماعیل محمد امریکی جریدے کو بیان کرتے ہیں کہ وہ شامی اور روسی فوج کی طرف سے گرائے گئے بیرل بموں کے نتیجے میں زخمی ہونے والے افراد کو ملبے سے نکال نہیں پاتے کہ ایک دوسرے حملے کے نتیجے میں متاثرہ شہریوں کی فریاد ان تک پہنچ جاتی ہے۔ جو پہلے سے بھی زیادہ تباہ کن ہوتا ہے۔ اسماعیل محمد کا کہنا ہے کہ امدادی کارکنوں کے پاس ملبے تلے دبے لوگوں کو زندہ نکالنے کے لیے وسائل نہیں ہوتے۔ جس کے نتیجے میں وہ بہت کم افراد کو زندہ بچا پاتے ہیں۔
خیال رہے کہ شام میں سنہ 2013ء میں سفید ہلمٹ والے امدادی کارکنان کے ایک گروپ کی بنیاد رکھی گئی تھی۔ یہ گروپ شام کے اندر ہی رہنے والے شہریوں پر مشتمل ہے۔ اس وقت یہ امدادی کارکنان ایک منظم تنظیم کی شکل اختیار کر چکے ہیں جو تنظیمی اور امدادی کام دونوں انجام دیتے ہیں۔
حال ہی میں برطانوی اخبار ’’گارجین‘‘ نے بھی شام کے ان امدادی کارکنوں کی خدمات پر ایک رپورٹ شائع کی تھی اور انہیں امن کے عالمی نوبیل انعام کا مستحق قرار دیا تھا۔ سفید ہیلمٹ امدادی کارکنان نے گذشتہ روز شامی فوج کے بیرل بموں سے گھروں کے ملبے تلے دب جانے والے 62 افراد کو زندہ بچالیا تھا جن میں سے بیشتر بچے اور خواتین شامل تھیں جب کہ بمباری کے دوران پچھلے کچھ عرصے کے دوران 145 امدادی کارکن شہید اور 400 زخمی ہو چکے ہیں۔