شام میں جاری خانہ جنگی میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے علاقے مشرقی غوطہ میں جاری شدید بمباری کے بعد باغیوں پر مزید دباؤ بڑھانے اور عام شہریوں کے انخلا کے لیے روس نے روزانہ کی بنیاد پر 5 گھنٹوں کے لیے ’ عارضی جنگ بندی‘ کی اجازت دے دی۔
خیال رہے کہ شام کے علاقے مشرقی غوطہ میں شامی صدر بشارالسد کی حکومتی فورسز کو روس کی حمایت حاصل ہے اور وہ اس علاقے میں مسلسل بمباری کررہا ہے۔
عربی نشریاتی ادارے الجزیرہ نے اپنی رپورٹ میں بتایا کہ روسی صدر ولادی میر پوٹن نے حکم دیا کہ روزانہ صبح 9 بجے سے دوپہر 2 تک عارضی طور پر جنگ بندی رہے گی۔
اس حوالے سے انسانی حقوق کے شامی مبصرین کا کہنا تھا کہ گزشتہ 8 دنوں میں زمینی اور فضائی حملوں میں 550 سے زائد شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔
شامی سول ڈیفنس ریسکیو ٹیم کے مطابق گزشتہ روز ہونے والے مبینہ کیمیائی حملے میں ایک بچہ ہلاک جبکہ مشرقی غوطہ کے الشفانیہ ٹاؤن میں ہونے والے کلورین گیس حملے میں 18 افراد زخمی بھی ہوئے۔
واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے سے مشرقی غوطہ میں موجود باغی شامی فورسز سے زمینی سطح پر لڑائی لڑ رہے ہیں جبکہ فورسز انہیں اس جگہ سے باہر نکالنے کی کوشش میں بدترین بمباری کر رہی ہیں۔
ادھر اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل نے ہفتے کو ایک قرار داد پاس کی، جس میں شام میں 30 روز کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا گیا لیکن وہاں موجود مقامی لوگوں کا کہنا تھا کہ اس قرارداد کے باوجود شیلنگ جاری ہے۔
گزشتہ روز اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انٹونیو گیوٹرز نے اس قرار داد پر فوری عملدرآمد کا مطالبہ کرتے ہوئے مشرقی غوطہ میں صورتحال کو’ زمین پر جہنم‘ قرار دیا۔
یاد رہے کہ روس کی حمایت یافتہ شامی حکومتی فورسز کی جانب سے جاری وحشیانہ بمباری سے مشرقی غوطہ میں شدید قہر کی صورتحال ہے اور افراط زر کافی بلند ہوگیا ہے اور ایک ڈبل روٹی کے بیگ کی قیمت 5 ڈالر (550 روپے) سے زائد تک پہنچ چکی ہے۔
امداد کے نام پر خواتین کا جنسی استحصال
دوسری جانب شام میں جاری اس خانہ جنگی کے بعد امداد کے نام پر خواتین کے جنسی استحصال کیے جانے کا انکشاف ہوا ہے۔
برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ شام میں اقوام متحدہ اور بین الاقوامی امدادی تنظیموں کی جانب سے امداد دینے پر مامور مردوں کی جانب سے خواتین کا جنسی استحصال کیا جارہا ہے۔
اس بارے میں امدادی رضا کاروں کا کہنا تھا کہ تین سال قبل بدسلوکی پر انتباہ کے باوجود مرد جنسی خواہشات کے لیے خوراک کی تجارت کر رہے ہیں اور نئی رپورٹ میں یہ بات واضح ہوتی ہے کہ یہ عمل ملک کے جنوبی حصے میں جاری ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسیوں اور خیراتی اداروں کا کہنا تھا کہ جنسی استحصال کے حوالے سے ان کی زیرو تشدد کی پالیسی ہے اور وہ خطے میں کسی ساتھی ادارے کی جانب سے بدسلوکی کے واقعے سے لاعلم تھے۔