سیریا۔ شام کے صدر بشار الاسد کا کہنا ہے کہ حلب میں فتح ملک میں گذشتہ پانچ برس سے جاری خانہ جنگی کے خاتمے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہوگا تاہم شمالی شہر میں باغیوں کی شکست سے یہ تنازع پوری طرح سے ختم نہیں ہوگا۔
شہر حلب میں شام کے صدر کی فوج اور باغیوں کے درمیان شدید لڑائی جاری ہے جس میں فوج کو روس اور ایران کی مدد حاصل ہے۔ شہر کے کئی پرانے علاقے جو کئی برسوں سے باغیوں کے قبضے میں تھے اب ان پر فوج کا کنٹرول ہے۔
شام کے ایک اخبار الوطن کے ساتھ انٹریو میں شام کے صدر نے کہا: ‘یہ سچ ہے کہ حلب میں ہمیں فتح حاصل ہوئی ہے، لیکن ہمیں حقیقت پسندی سے کام لینا چاہیے، اس کا مطلب شام میں جنگ کا خاتمہ نہیں ہے۔ لیکن یہ اس خاتمے کی سمت میں ایک بڑا قدم ہوگا۔’ ان کا کہنا تھا: ‘دہشت گرد ہر جگہ موجود ہیں۔ اگر ہم حلب میں انھیں ختم بھی کرلیں تو بھی ان کے خلاف ہماری جنگ جاری رہے گي۔’
شامی فوج اس وقت مشرقی حلب کے دو تہائی علاقے کو کنٹرول کرتی ہے اور ان کی اب کوشش ہے کہ حلب کے شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔ اس دوران باغیوں نے عام شہریوں کے انخلا کے لیے پانچ روز کے لیے جنگ بندی کا مطالبہ کیا تھا۔ لیکن چونکہ سرکاری فوجوں کی پیش قدمی جاری ہے اس لیے بشار الاسد نے کسی بھی جنگ بندی سے انکار کر دیا ہے۔
امریکہ اور اس کے دیگر پانچ مغربی اتحادیوں نے بھی فوری طور پر جنگ روکنے کا مطالہ کیا تھا لیکن شام نے اس مطالبے کو مسترد کر دیا گیا۔ دسیوں ہزار عام شہری باغیوں کے زیر قبضہ جنوب مشرقی علاقے میں اب بھی پھسنے ہوئے ہیں۔ باغیوں کا کہنا ہے کہ اس علاقے کے رہائشیوں کو شدید خطرہ لاحق ہے اور وہ ان کی بھلائی کے لیے کسی بھی کوشش کے لیے تیار ہیں۔
اس علاقے میں رہنے والے ایک شخص کا کہنا تھا کہ باغیوں کے زیر قبضہ اضلاع میں اس وقت بہت زیادہ لوگ جمع ہیں اور لوگوں میں اس بات کا خوف پایا جاتا ہے کہ انھیں پکڑ کر حراست میں لیا جائے گا۔
حلب میں شام کی فوج اور روس کی جانب سے کافی بمباری کی جاتی رہی ہے جس سے علاقے میں غذائی اشیا اور دواؤں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ وہاں پر سکول کے ایک استاد وسام کا کہنا تھا: ’میں ایسے لوگوں کو جانتا ہوں جنھوں نے یہاں پر رہتے ہوئے گذشتہ چار پانچ برسوں میں کسی بھی سرگرمی میں حصہ نہیں لیا ہے۔ وہ صرف اپنے مکان میں رہنا چاہتے تھے اور اب حکومت ایسے ہی بہت سے لوگوں کو گرفتار کرنے میں لگی ہے۔‘
حلب میں شام کی فوج اور روس کی جانب سے کافی بمباری کی جاتی رہی ہے جس سے علاقے میں غذائی اشیا اور دواؤں کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ شامی فوج اس وقت مشرقی حلب کے دو تہائی علاقے کو کنٹرول کرتی ہے اور ان کی اب کوشش ہے کہ حلب کے شہر پر مکمل کنٹرول حاصل کر لیا جائے۔ تاہم خیال کیا جا رہا ہے کہ اب بھی باغیوں کے زیرِ کنٹرول علاقوں میں ایک لاکھ سے زائد افراد محصور ہیں جہاں خوارک کی اشیا ختم ہو چکی ہیں اور ان علاقوں میں طبی سہولیات بھی موجود نہیں۔