نئی دہلی۔ پاکستان کی مدد کے بغیر آج ہماری بیٹی یہاں نہ ہوتی۔ انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ انڈین شہری ڈاکٹر عظمیٰ کو انڈیا واپس بھیجنے میں پاکستانی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے انسانی بنیادوں پر ان کی بہت مدد کی اور ان کی مدد کے بغیر ڈاکٹر عظمیٰ کی گھر واپسی شاید ممکن نہیں ہو پاتی۔ عظمیٰ نے پاکستان کے علاقے بونیر سے تعلق رکھنے والے ایک پاکستانی شخص سے شادی کی تھی۔
ڈاکٹر عظمیٰ کا کہنا ہے کہ ملیشیا میں ان کی ملاقات طاہر نامی ایک پاکستانی شہری سے ہوئی تھی اور وہ پاکستان گھومنے آئی تھیں۔ لیکن طاہر انہیں بونیر لے گئے تھے جہاں انہوں نے مبینہ طور پر زبردستی ان سے نکاح نامے پر دستخط کروائے تھے۔
ڈاکٹر عظمیٰ نے جمعرات کی دوپہر واہگہ سرحد سے انڈیا لوٹنے کے بعد انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج اور پاکستان میں انڈیا کے دپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کے ساتھ ایک پریس کانفرنس کی جس کے دوران سشما سوراج نے ڈاکٹر عظمیٰ کے پاکستانی وکیل بیرسٹر شاہ نواز نون اور جسٹس کیانی کا بھی شکریہ ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ بیرسٹر شاہنواز نون نے عظمیٰ کا کیس بالکل اپنی بیٹی کی طرح لڑا اور جسٹس کیانی نے کیس کا فیصلہ حقائق اور انسانیت کو مد نظر رکھتے ہوئے کیا جس کے لیے وہ ان کی شکرگزار ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ دونوں ممالک کے درمیان موجودہ کشیدگی کے باوجود جس طرح پاکستانی وزارت خارجہ اور وزارت داخلہ نے ان کی مدد کی اس کے لیے بھی وہ شکر گزار ہیں۔ اس کے علاوہ انہوں نے اسلام آباد میں انڈیا کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کا بھی شکریہ ادا کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ ‘آج میں نے راحت کا سانس لیا ہے کہ میری بچی واپس لوٹ آئی ہے، اور وہ راحت آپ کو میرے چہرے پر بھی نظر آرہی ہوگی۔’
اس سے پہلے پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈاکٹر عظمیٰ نے اپنے بیان میں انڈیا واپس لوٹنے پر اپنے احساسات کا اظہار کیا۔ انہوں نے کہا کہ ‘پاکستان جانا بہت آسان ہے، ویزا آسانی سے مل جاتا ہے، لیکن وہاں سے بچ کر آنا بہت مشکل۔ پاکستان موت کا کنواں ہے۔’ انہوں نے مزید کہا کہ ’انڈیا میں خاص طور پر مسلمانوں میں یہ تاثر ہے کہ پاکستان بہت اچھا ہے لیکن میں وہاں جو دیکھ کر آئی ہوں، ہر گھر میں دو دو تین تین بیویاں ہیں، عورتوں کے ساتھ جس طرح کا سلوک ہوتا ہے۔۔۔ ہمارا انڈیا جیسا بھی ہے، اچھا ہے۔ یہاں ہمیں ہر آزادی حاصل ہے۔’
ڈاکٹر عظمیٰ نے یہ بھی کہا کہ بونیر میں جس جگہ وہ تھیں وہاں ان جیسی اور بہت سی لڑکیاں تھیں۔ انہوں نے کہا ‘وہ سب انڈین شہری نہیں تھیں، ان میں کچھ فلپائن اور ملیشیا سے بھی ہو سکتی ہیں۔ مگر وہاں مجھ جیسی اور بہت لڑکیاں تھیں جن کے ساتھ برا سلوک کیا جا رہا تھا۔’ انہوں نے کہا کہ ‘اگر میں کچھ اور دن وہاں رہ جاتی تو وہ یا تو مجھے مار دیتے یا مجھے آگے بیچ دیتے یا پھر کسی آپریشن میں میرا استعمال کرتے۔’ انہوں نے انڈین وزیر خارجہ سشما سوراج اور اسلام آباد میں انڈین ہائی کمیشن کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ ان مشکل دنوں میں سشما سوراج فون پر ان سے مسلسل رابطہ میں رہیں اور ان کی حوصلہ افزائی کی۔