ممبئی ۔ مہاراشٹر کے ناگپور شہر کی دوسو سالہ قدیم تاریخی مسجد کو سڑک کی توسیع کے نام پر منہدم کرنے والے معاملے پر سپریم کورٹ نے کل یہاں اپنے ایک اہم فیصلہ میں روک لگا دی اور ریاستی حکومت کو معاملے کی اگلی سماعت پر اپنے موقف کا اظہار کرنے کا حکم جاری کیا ، یہ اطلاع یہاں ممبئی میں جمعیۃ علماء مہاراشٹر (ارشد مدنی) قانونی امداد کمیٹی کے سربراہ گلزار اعظمی نے اخبار نویسوں کو دی ۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ ناگپور شہر کے تلسی باغ نامی علاقے میں واقع مسجد الف الدین جس کی تعمیر 1796 میں ہوئی تھی جو تاریخی اہمیت کی حامل ہے لیکن سڑک کی توسیع کے نام پر اسے منہدم کرنے کے انتظامیہ نے احکامات جاری کیئے تھے جس کے بعد مقامی مسلمانوں نے نچلی عدالت اور ممبئی ہائی کورٹ کی ناگپور بینچ میں پٹیشن داخل کی تھی لیکن عدالت نے انتظامیہ کے حق میں فیصلہ صادر کرتے ہوئے27 اکتوبر کو مسجد کو منہدم کیئے جانے کے احکامات جاری کیئے تھے ۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ ممبئی ہائی کورٹ کا فیصلہ آنے کے بعد مقامی مسلمانوں نے جمعیۃ علماء سے رجوع کیا اور ہائی کورٹ کے فیصلہ کو عدالت عظمی یعنی کہ سپریم کورٹ میں چیلنج کیا گیا جس پر کل سماعت عمل میں آئی جس کے دوران سپریم کورٹ نے ہائی کورٹ کے حکمنامہ پر اسٹے آرڈر دیا جس کی وجہ سے مسجد کے انہدام پر فوری روک لگی ورنہ سڑک توسیع کے نام پر مسجد کو شہید کردیا جاتا۔
گلزار اعظمی نے بتایا کہ سپریم کورٹ کی دو رکنی بینچ کے جسٹس دیپک مشراء اور کھانولکر کے روبرو معاملے کی سماعت عمل میں آئی جس کے دوران جمعیۃ علماء کی جانب سے ایڈوکیٹ حذیفہ احمدی اور ایڈوکیٹ ستیہ جیت دسائی نے پیروی کی اور مسجد کے متعلق تاریخی حقائق سے عدالت کو آگاہ کیا اور عدالت کو بتایا کہ سڑک توسیع کے نام پر مسجد کو منہدم کرنے کا منصوبہ بنایا جارہا ہے جبکہ اس علاقے میں سڑک توسیع کی ضرورت ہی نہیں ہے اور اگرہے بھی تو مسجد منہدم کرکے سڑک توسیع نہیں کی جاسکتی بلکہ سڑک توسیع کے لیئے کوئی دوسرا منصوبہ بنایا جانا چاہئے ۔
واضح رہے کہ مسجد الف الدین ایک تاریخی مسجد ہے جس کی تعمیر آج سے دو سو سال قبل عمل میں آئی تھی لیکن ناگپور کارپوریشن نے روڈ کی توسیع کے نام پور اسے مہندم کرنے کے احکامات جاری کئے تھے جس کے خلاف مقامی مسلمانوں خصوصاً زاہد انصاری اور مظہر الدین انصاری و دیگر نے مقامی عدالت سے رجوع کیا لیکن فیصلہ خلاف میں آنے کے بعد انہوں نے جمعیۃ علماء مہاراشٹر سے رابطہ قائم کیا ۔
مظہر انصاری نے کہا کہ جمعیۃ علماء سے رابطہ قائم کرنے اور گلزار اعظمی سے صلاح و مشورہ کرنے کے بعد سپریم کورٹ میں عرضداشت داخل کی گئی جس پر انہیں اس وقت جزوی کامیابی حاصل ہوئی جب عدالت نے ممبئی ہائی کورٹ کے فیصلہ پر اسٹے دے دیا ۔ مظہر انصاری نے مزید بتایا کہ سپریم کورٹ میں عرضداشت مسجد کے ایک نمازی و سبکدوش ٹیچر عطاالرحمن خان کی جانب سے داخل کی گئی تھی ۔