نئی دہلی : سپریم کورٹ نے جمعہ کو نوٹ بندي کے معاملہ کی سماعت کرتے ہوئے مرکز سے کئی سوالات پوچھے۔کورٹ نے سماعت کے دوران درخواست گزاروں اور حکومت سے نوٹ بندي سے ہو رہی تکلیف کو ختم کرنے کے لئے مشورہ بھی طلب کیا۔ کورٹ نے ساتھ ہی ساتھ حکومت سے پوچھا حالات معمول پر آنے میں اور کتنے دن لگیں گے ؟ معاملہ کی اگلی سماعت اب 14 دسمبر کو ہوگی۔
چیف جسٹس ٹی ایس ٹھاکر کی صدارت میں تین ججوں کی بنچ نے سماعت کے دوران اٹارنی جنرل مکل روہتگی سے پوچھا کہ ‘اگر آپ نے ہر ہفتہ بینک سے نکالنے کی حد 24000 رکھی ہے ، تو بینکوں کو اس سے انکار نہیں کرنا چاہئے،
اس پر روہتگی نے کہا کہ بچت اکاؤنٹ سے رقم نکالنے کی زیادہ سے زیادہ حد 24000 روپے ہے، جس پر چیف جسٹس نے اے جی سے پوچھا کیوں نہ کم سے کم حد 10000 روپے کر دی جائے ، تاکہ بینک انکار نہیں کر سکے۔ پھر روہتگی نے اس بارے میں مرکزی حکومت سے مشورہ لینے کی بات کہی۔
خیال رہے کہ درخواست گزاروں نے عدالت میں داخل اپنی درخواستوں میں کہا تھا کہ دارالحکومت دہلی میں بھی بینکوں کے پاس کیش نہیں ہے۔ ادھر مرکزی حکومت نے سپریم کورٹ میں ساتھ ہی ساتھ بتایا کہ تقریبا 12 لاکھ کروڑ کے 500 اور 1000 روپے کے نوٹ آر بی آئی کے پاس آ چکے ہیں۔
چیف جسٹس نے روہتگی سے پوچھا کہ جب آپ نے یہ پالیسی بنائی ، تو یہ خفیہ تھی ، لیکن اب آپ ہمیں بتا سکتے ہیں کہ کیش کی دستیابی میں مزید کتنا وقت لگے گا۔ کورٹ نے ساتھ ہی ساتھ مرکز سے پوچھا کہ کیوں نہیں ضلع کوآپریٹیو بینکوں کو پرانے نوٹ جمع کرنے کی اجازت دی جا رہی ہے۔
واضح رہے کہ 8 نومبر کو نوٹ بندي کے اعلان کے بعد سے ہی ملک بھر کے اے ٹی ایم اور بینکوں میں لوگوں کی لمبی لمبی قطاریں لگی ہوئی ہیں ۔ بینکوں کے پاس کافی کیش نہ ہونے کی شکایت بھی مل رہی ہے۔