نئی دہلی : گئوکشی پر ملک میں مکمل پابندی عائد کرنے کے مطالبہ کی عرضی کو سپریم کورٹ نے آج خارج کردیا۔ یہ عرضی ایک شخص ونیت ساہا کی طرف سے دائر کی گئی تھی جس میں ملک کے تمام ریاستوں میں گئو کشی پر پابندی کا یہ کہتے ہوئے مطالبہ کیا گیا تھا کہ مہاراشٹر حکومت نے ریاست میں گئو کشی اور گائے کے گوشت کی خریدو فروخت اور اسے رکھنے پر مکمل پابندی عائد کردینے کی وجہ سے مہاراشٹر سے ان ریاستوں میں گائے کی اسمگلنگ بڑھ گئی ہے ، جہاں ایسی پابندی عائد نہیں ہے۔ اس سے مہاراشٹر کے گوشت کے تاجروں کو نقصان ہورہا ہے ۔ لہذا پورے ملک میں گئو کشی پر پابندی عائد کردی جائے۔
عدالت نے عرضی مسترد کرتے ہوئے کہاکہ غیر قانونی طریقے سے مویشیوں کو ایک ریاست سے دوسری ریاست لے جانے کی سرگرمیوں پر پابندی کا حکم وہ پہلے ہی منظور کرچکی ہے ۔ گئو کشی پر ایک ریاست پابندی عائد کرسکتی ہے ، تو دوسری ریاست نہیں ۔ایسے میں ریاستوں کے ذریعہ منظور کردہ قانون کے معاملے میں وہ کوئی دخل دینا نہیں چاہتی ۔
مہاراشٹر کی بی جے پی کی قیادت والی مہاراشٹر حکومت نے 1976 کے تحفظ مویشی بل میں ترمیم کرکے ریاست میں گئو کشی اور گائے کے گوشت کی خریدوفروخت اور اسے رکھنے پر مکمل پابندی عائد کردی ہے۔ ریاست کے تقریباً 36 گوشت کاروباریوں نے ریاستی حکومت کے اس قانون کے آئینی جواز کو ممبئی ہائی کورٹ میں چیلنج کیا تھا اور اس سے اپیل کی تھی کہ انہیں گائے کی نہیں بلکہ سولہ سال سے زیادہ عمر کے سانڈوں اور بیلوں کو ذبح کرنے کی اجازت دی جائے۔ اپنی دلیل میں انہوں نے کہا تھا کہ اس عمر کے بعد یہ مویشی کھیتی باری یا دیگر کاموں میں استعمال کے لائق نہیں رہ جاتے ، لیکن بامبے ہائی کورٹ سے انہیں راحت نہیں ملی اور عدالت نے اس معاملہ میں ریاستی حکومت کے حکم کو برقرار رکھا تھا۔