عام طور پر زیادہ ترانسانوں کی آنکھیں بھوری ہوتی ہیں، تاہم سیاہ، سفید اور نیلی آنکھوں والے لوگ بھی دنیا میں موجود ہیں۔
کچھ لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ آنکھوں کا مختلف رنگ امراض چشم یا کسی جینیاتی کمزوری کی وجہ سے ہوتا ہے، تاہم درحقیقت ایسا نہیں۔
ڈینمارک کی کوپن ہیگن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق نیلی آنکھیں کسی بیماری کی وجہ سے نہیں بلکہ نسل در نسل منتقل ہوتے ایک جینیاتی عمل کے ذریعے ہی ہوتی ہیں۔
ہیلتھ جرنل سائنس ڈیلی میں شائع ایک رپورٹ کے مطابق یونیورسٹی آف کوپن ہیگن کے ڈیپارٹمنٹ آف سیلولراینڈ مالیکیولر کے ماہرین نے ہزاروں سال کے جینیاتی ڈیٹا کا جائزہ لیا۔
ماہرین نے جینیاتی ڈیٹا میں صرف انسان کے آنکھوں کے رنگ تبدیل ہونے کے نتائج کو تلاش کرنے کی کوشش کی۔
ماہرین میں شامل ڈیپارٹمنٹ آف سیلولراینڈ مالیکیولر کے پروفیسر ہینس ایڈبرگ نے بتایا کہ 6 ہزار سے 10 ہزار سال قبل انسان کی آںکھیں صرف بھوری ہی ہوتی تھیں، لیکن کم سے کم 6 ہزار سال بعد انسانوں میں ایک جینیاتی تبدیلی ہوئی۔
پروفیسر ہینس ایڈبرگ کے مطابق 6 سے 10 ہزار برس قبل انسانوں کے جین میں 2 Oculocutaneous Abinism (او سی اے 2) نامی تبدیلی آئی، جو انسان کے بالوں، جلد اور آنکھوں کے رنگ میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ او سی اے 2 میں تبدیلی کے بعد انسانوں کی آنکھوں کا رنگ تبدیل ہوا، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ لوگوں نے اس عمل کو نام نہاد پی پروٹین کا نام دے کر اسے خوبصورتی سے جوڑ دیا۔
رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ انسان جین میں او سی اے 2 کی تبدیلی کیوں آئی؟۔
خیال رہے کہ ماہرین نے اس تحقیق پر 1996 میں کام کا آغاز کیا، اور اس حوالے سے پہلی رپورٹ 2008 میں منظر عام پر آئی۔