انہوں نے گیتا، رامائن اور مہابھارت کے ساتھ ساتھ قرآن شریف اور دیگر اسلامی کتابوں کو بھی شائع کیا۔ ان کی کوششیں یہ تھی کہ دونوں برادری کے لوگ اس کے ذریعہ ایک دوسرے کے قریب آئیں۔ جواہر لال نہرو پی جی کالج کے سابق صدر شعبہ اردو جناب احسن بیگ نے اپنے استقبالیہ تقریر میں کہا کہ منشی نول کشور کی خدمات نے ھندبستاني ادب کو نئی بلندیاں بخشیں۔ طالب علم محمد مدثر سلیم نے اس موقع پر کہا کہ منشی نول کشور اپنی محنت، لگن اور دور اندیشی کے ذرے بلندی پر پہنچتے گئے ۔
انہوں نے کئی تعلیمی ادارے قائم کئے اور کئی لائبریریوں کی مدد کی۔ وہ جدیدیت اور روایت میں یقین رکھتے تھے . وہ سچے ہندو کی طرح تمام مذاہب کا احترام کرتے تھے ۔ انکے اسلامی کتابیں چھاپنے کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ جو کام ہندوستان میں منشی جی نے کیا وہ اسلامی ممالک سمیت پوری دنیا میں اور کہیں نہیں ہوا۔ اس موقع پر صحافی سرور علی رضوی کو ‘منشی نول کشور ایوارڈ’ سے نوازا گیا۔ اس سے قبل، حافظ عبد اللہ کی قرآن شریف کی طلاوت کے ساتھ سیمینار کا آغاز ہوا۔
پروگرام کی نظامت مولانا اصرار وارثی نے کی. حاجی نصیر انصاری نے نعت پیش کی۔ اس موقع سید عاصم علی، خورشید احمد خاں، ظفر بن عزیز، ماسٹر جلال الدین، ڈاکٹر اے ایچ عثمانی، حفظ الرحمن ، خورشید جہاں، رام غلام، محمد فرقان، نصیر الحق انصاری، نفیس الحسن، طارق جیلانی، عقیل احمد، ڈاکٹر غفران قاسمی، ڈاکٹر فاروق، ڈاکٹر سعید الرحمن، اطہر سلیم، زینت افروز، صبیحہ محمود، عامرہ محمود اور رخسانا پروین خاص طور پر موجود تھے ۔