اتنی شدددت سے مخطوطات تلاش کر انہیں شائع نہ کراتے اور اس طرح ہماری علمی ورثے کو محفوظ نہ کرتے ۔ دارالعلوم ندوہ العلما کے مولانا سید محمد غفران نے اس موقع پر کہا کہ منشی نول کشور ایسے بلند وقار انسان تھے کہ ان کے نام پر ملک میں یونیورسٹی اور اکیڈمی قائم ہونی چاہیے تھی، لیکن ملک نے انہیں فراموش کر دیا۔ یہ الزام صرف ادبی دنیا پر ہی نہیں بلکہ حکومتوں پر بھی ہے ۔ اسے کم از کم لکھنؤ کو تو انکا احترام کرنا چاہئے تھا۔ اگرچہ وہ ابھی تک اپنی کام کی بدولت ملک میں زندہ اور جاوید ہیں۔
مولانا غفران نے کہا کہ منشی نول کشور ء 1858 میں لکھنؤ آئے تھے اور ایک پبلیشر کے طور پر انکے کام کو دینی اور ادبی حلقوں میں بہت پسند کیا گیا۔ انہوں نے اپنی صلاحیتوں کے ذریعے اہم کتابوں کو پرنٹ کرنے کے لئے پہل کی۔ ان کی عظمت دنیا کے دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی، اور علمی دنیا نے اسے سلام کیا۔
انہوں نے مغربی اور مشرقی دنیا کو ادبی کتابوں سے جوڑا، جس سے ہماری قابل قدر کتابیں تباہ ہونے سے بچ گئیں۔ ہمارے ملک بہت سے مذاہب کے سنگم ہیں۔ یہ سنگم ہی ہندوستان کی خوبصورتی، عظمت اور شناخت ہے اور یہ شناخت ختم نہیں ہونی چاہئے ۔ کچھ لوگ اپنے مفاد کے لئے ملک کی تقسیم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ یہ بہتر ہے کہ ہم انگریزوں کی پھوٹ ڈالو اور راج کرو کے سبق پر عمل نہ کریں۔ ہم ایسا ماحول تخلیق کریں جن میں منشی ناول کشور جیسی اور شخصیات پیدا ہوں۔