نئی دہلی۔ دارالعلوم دیوبند کا کردار ملک کی تعمیر و تشکیل میں اہم ہے۔ ان خیالات کا اظہار دار سابق مرکزی وزیر آسکر فرنانڈیز نے کیا۔ اردو زبان وادب کے فروغ میں دارالعلوم دیوبند کی اہم خدمات کا ذکر کرتے ہوئے ہندوستان میں پاکستانی ہائی کمشنر عبدالباسط نے کہا کہ دیوبند کے علما نے ارد و میں کتابیں تصنیف کرکےاردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ یہ بات انہوں نے تنظیم علمائے حق کے زیر اہتمام منعقٖدہ ’دارالعلوم دیوبند کے صحافتی اور ادبی کردار‘ کے موضوع پرمنعقدہ ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہی۔ انہوں نے مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا شبیر احمد عثمانی، مولانا حسین احمد مدنی کے تصانیف کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ان علمائے کرام نے اردو میں سیکڑوں کتابیں لکھ کر اردو کے فروغ میں اہم کردار ادا کیا ہے اور آج پوری دنیا میں ان کی کتابیں پڑھی جاتی ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اردو میں وہ لچک ہے کہ سخت سے سخت حالات میں بھی ہیئت و فطرت کے اعتبار سے زندہ رہنے کی صلاحیت رکھتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ آج بھی ہندوستان میں اردو مقبول زبان ہے۔
انہوں نے اردو کی بقا کے لئے سرکاری سرپرستی کو لازمی قرار دیتے ہوئے کہا کہ کسی زبان کی برقراری کے لئے مالی مواقع کا ہونا لازمی ہوتا ہے اس لئے اردو میں مالی و اقتصادی مواقع پیدا کرنے کی ضرورت ہے۔ مسٹر باسط نے پاکستان کو اردو کا مسکن قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں اردو سرکاری زبان ضرور ہے تاہم وہاں بھی اس کی راہ میں بہت سی رکاوٹیں ہیں ا ور جو کام اردو زبان میں ہونی چاہئے وہ کام نہیں ہوپارہا ہے۔
کانگریس کے جنرل سکریٹری آسکر فرنانڈیز تقریب کے اختتام پر تشریف لائے اور ’فکر انقلاب‘ کے خصوصی شمارے کا اجرا کرتے ہوئے کہا کہ دارالعلوم دیوبند نے صرف ملک کی آزادی میں ہی نہیں بلکہ اس کی تعمیروتشکیل اور اردو کی نشرواشاعت میں بھی اہم رول ادا کیا ہے جسے تاریخ فراموش نہیں کرسکتی۔ کلیدی خطبہ پیش کرتے ہوئے آل انڈیا تنظیم علمائے حق کے قومی صدر مولانا اعجاز عرفی قاسمی نے کہاکہ علمائے دیوبند نے صرف شاعری کے میدان میں ہی نہیں، نثر نگاری کی دنیا میں بھی اپنا ادبی و تخلیقی جوہر دکھایا ہے اور فرسودہ راہوں پر چلنے والے نثر نگار نہیں، بہت سے صاحب اسلوب نثر نگاروں کو جنم دیا ہے۔انہوں نے کہا کہ فضلائے دیوبند کی نثر میں علمیت، منطقیت اور معروضیت کی فراوانی ہے۔ نہ وہ بے جا تمہید باندھتے ہیں نہ خارج از موضوع درو دراز کی باتیں کرکے قاری کی تضییع اوقات اور ذہنی تشویش کا سبب بنتے ہیں۔ ان کی نثر میں ارتکاز و استدلال اور اخذ و استنباط کا مادہ ہوتا ہے۔
دہلی اردو اکیڈمی کے وائس چیرمین ڈاکٹر ماجد دیوبندی نے اردو کے حوالے سے کہاکہ اردو وہ زبان ہے جو نامساعد حالات میں بھی باقی رہنا جانتی ہے اور دارالعلوم دیوبند نے اردو کو پوری دنیا تک پہنچایا ہے۔ یہ دیوبند کا ہی فیض ہے کہ کئی ملک میں مدارس کا ذریعہ تعلیم اردو ہے۔ اقرا انٹرنیشنل اسکول کی بانی ڈائرکٹر محترمہ نور عائشہ نے اس موقع پر اپنے خطاب میں تعلیم کی اہمیت پر زوردیتے ہوئے کہا کہ ہم نے اسکول اور مدرسہ کے درمیان تعلیم میں جو دوری ہے اسے پاٹنے کی کوشش کی ہے کیوں کہ کچھ لوگ مدرسہ میں عصری تعلیم کا رونا روتے ہیں توکچھ لوگ اسکول میں دینی تعلیم نہ ہونے کا اور ہمارا اسکول دونوں تعلیم کا سنگم ہے۔ انہوں نے کہا کہ مسلم معاشرے میں صلاحیت کی کمی نہیں ہے، ضرورت اس بات کی ہے کہ اسے تلاش کیا جائے اور آگے بڑھایا جائے۔