کہنے والے کہتے ہیں کہ انسان پہلے پہل درندہ تھا، رفتہ رفتہ انسان بنا۔ جی چاہتا ہے کہ کہنے والوں سے پوچھیںکہ کیا واقعی وہ انسان بن گیا ہے؟ یا اس کا درندہ اس کے اندر چھپا بیٹھا ہے البتہ اس نے اپنے اوپر انسانیت کا ملمع چڑھا لیا ہے؟
دل و دماغ حیران ہیں کہ آج کس طرح گلی گلی کوچہ کوچہ ننھی بچّیوں کو اٹھا کر کس بے رحمی سے درندگی کا نشانہ بنایا جا رہا ہے ۔ دیکھنے میں کیسے کیسے نیک اورپاکباز صورتیں بنائے یہ لوگ کمسن بچیوں کو ورغلا کر اپنے عقوبت خانوں میں لے جاکر ان کی معصومیت کو پیروں تلے روندتے ہیں اور اسی پر بس نہیں، اپنی دہشت کی گواہی کو وقت کی تختی سے خوب اچھی طرح مٹانے کے لئے ان کچلی ہوئی مسلی ہوئی ننھی روحوں کو موت کے گھاٹ بھی اتارتے ہیں۔ پھر یہی لوگ بگلا بھگت بن کے معاشرے میں اس طرح گھل مل جاتے ہیں جیسے ساری نیکی ان پر ختم اور ساری پارسائی ان پر تمام ہے۔ حال ہی میں کراچی میں کسی پر وحشت سوار ہوئی اور اس نے محلے کی نوعمر لڑکیوں کو کہیں لے جاکر انہیں شدید اذیت دینے اور ان کی روح اور بدن کو اچھی طرح گھائل کرنے کے بعد انہیں چھوڑدیا۔ کسی نے اپنے خاندان کی لڑکی کو ایک مہینے تک اپنی قید میں رکھ کر اس کے بدن کو سلگتی ہوئی سگریٹوں سے خوب اچھی طرح جلا نے کے بعد ایک روز اس کا گلا گھوٹا اور بچی کو جان سے مارکر نہیں معلوم کون سی نفسیاتی لذّت اٹھائی اور کون سی جنسی آسودگی پائی۔دکھ یہ ہے کہ ان وحشیوں کو چوراہے کے بیچ ایسی سزا نہیں دی جاتی کہ جس سے ہم نظارہ کرنے والوں کوبھی آسودگی ملے۔ اب ایک درندے کو بارہ تیرہ مرتبہ سزائے موت دینے کے اعلان کیا گیا ہے۔ مگر ہمیں کیا۔ اس تو وہ زمانے اچھے تھے جب ایسے مجرموں کو یا تو ہاتھی کے پاؤں تلے کچلا جاتا تھا یا انہیں توپ کے دہانے پر باندھ کر توپ داغی جاتی تھی۔ لوگ خاموشی سے یہ ساری کارروائی دیکھتے تھے اور گردنیں ڈالے اپنے اپنے گھروں کو چلے جاتے تھے۔ پرانی ریاستوںمیں سزا کا ایک اور طریقہ بھی تھا۔چوروں، ڈاکوؤں اور لٹیروںکو ایسے قیدخانوں میں رکھا جاتا تھا جو سڑک کے کنارے بنے ہوتے تھے۔راہ چلتے لوگ انہیں نہ صرف دیکھتے تھے بلکہ برا بھلا بھی کہتے تھے اور جی چاہے تو ان پر کچرا بھی پھینک جاتے تھے۔ حیرت ہے کہ وقت کے ساتھ سزا کے یہ ڈھنگ کیوں بدل گئے حالانکہ ان لوگوں کے گھناؤنے جرائم کی تفصیل سن کر آج بھی جی یہی چاہتا ہے کہ ننھی بچّی کو اپنے منحوس قدموں تلے کچلنے والے کو ہاتھی کے پاؤں کے نیچے یوں کچلا جائے کہ دنیا دیکھے۔ کتنے ہی ملکوں میں تو خیر سزائے موت ہی ختم کردی گئی ہے لیکن ایران کی تازہ مثال ہے جہاں ریاست کے خلاف جرم کا ارتکاب کرنے والوں کو چوراہے کے بیچ پھانسی پر لٹکایا جاتا ہے اور ان کی لاشیں کئی کئی روز لٹکی رہتی ہیں۔ چین والے تو آج کا کام کل پر چھوڑنے کے قائل ہی نہیں۔ وہ جرم کے ارتکاب اور سزا کے انعقاد میںزیادہ سے زیادہ چند گھنٹوں کا فاصلہ رکھتے ہیں۔ کچھ عرصہ ہوا وہاں کچھ لوگ بچوں کے دودھ میں ملاوٹ کرتے ہوئے پکڑے گئے تھے۔ بس ایک دن پکڑے جانے کی خبر آئی، جلد ہی علاقے میں گولیوں کی ترتراہٹ سنی گئی۔ مجرم اپنے انجام کو پہنچے۔ اپنے اپنے کاموں میں مصروف قوم ذرا دیر کو رُکی اور پھر اپنے کام میں جُٹ گئی ۔ یہ عجیب موت ہے جو زندگی کی راہ میں رکاوٹ نہیں بنتی۔ اسی طرح چین میں کرپشن ، خیانت کے مجرم پکڑ ے گئے۔ تعداد تین ہندسوں میں تھی۔ سارے کے سارے اپنے انجام کو پہنچے۔مجرم ختم ہوئے، اس میں کوئی کمال نہ تھا۔ اصل کمال یہ تھا کہ جرم بھی تمام ہوا۔ جرم اور سزا کی یہ بحث پرانی اور طولانی ہے اور اس میں الجھنا بے سود ہے مگر ہے تو سوچنے کی بات۔ قصورمیں قتل ہونے والی ً کمسن زینب کا باپ اگر التجا کررہا ہے کررہا ہے کہ اس کی بیٹی کے قاتل کو سر عام پھانسی دے جائے توسچ تو یہ ہے کہ باپ کا یہ حق بنتا تو ہے۔ ہم اگرچہ یہ منظر دیکھ نہ پائیں گے لیکن کس کا جی نہ چاہے گا کہ کلیجے میں ٹھنڈک پڑے۔
اب بات کرتے ہیں کہ یہ گھناؤنا جرم گلی گلی کیوں ہونے لگا ہے، یہ کیسی رسم چلی ہے کہ گھر کی کم عمر بچیاں محفوظ نہیں رہیں۔ روز کا معمول ہوا جاتا ہے کہ نہ صرف بچیاں اٹھائی جاتی ہیں بلکہ اب تو ان کے اٹھائے جانے کی سی سی ٹی وی، یعنی ٹیلی وژن کیمرے سے خود بخود اتاری ہوئی تصویر بھی نشر ہونے لگی ہے۔ ننھی زینب کی وہ تصویر ذہن کے پردے پر کبھی ماند نہ پڑے گی جس میں وہ بھولی بچّی اپنے قاتل کی انگلی تھامے چلی جارہی ہے ۔ اس منظر کا ایک دردناک پہلو اس بے رحم اور جلّاد صفت کی صورت شکل کا نظارہ ہوتا ہے۔ اکثر کو دیکھ کر گماں ہوتا ہے کہ کسی عبادت گاہ میں پیشانی رگڑ کر آئے ہیں۔ بزرگ ایسے لوگوں کے لئے کیا اچھا لفظ وضع کر گئے ہیں، بگلا بھگت۔ ہمارے خواجہ عبدالمجید کی جامع اللغات کے بقول’بگلا شکار کے وقت بالکل چپ اور بے حرکت کھڑا ہو تو شکل سے ایسا معلوم ہوتا ہے جیسے کوئی بڑا بھلا مانس ہے، مگر جوں ہی کوئی مچھلی نزدیک آتی ہے نہایت پھرتی سے پکڑ کر نگل جاتا ہے اور دوبارہ ویسے ہی ساکن کھڑا ہوجاتا ہے، ریا کار، منافق مکّار اور گندم نما جو فروش۔
یہ سارے لفظ پڑھیں تو بڑے ہی سنے سنے ، بہت ہی جانے پہچانے سے لگتے ہیں۔ کسی مجمع پر نظر دوڑائیں تو اندر سے انسانی جبلّت پکار اٹھتی ہے کہ یہ لفظ بہت سوں پر چسپاں ہوتے ہیں۔پڑوسیوں پربھی اوربہنو ئیوں،چچاؤں اور ماموؤں پر بھی۔ ایسے میں گھر کے سارے ہی افراد سے التجا اور لتماس ہی کر سکتے ہیں کہ جیسے بھی بنے ، ان ننھی کلیوں کی حفاظت کیجئے۔ یہ ایسی چھوٹی چھوٹی شمعیں ہیں کہ ایک جھونکے کی بھی تاب نہیں لا سکتیں ۔ان کے گرد دونوں ہتھیلیاں یو ں کر لیجئے کہ چاہے آپ کے ہاتھ جل جائیں، ان پر آنچ نہ آنے پائے۔ انہیں دنیا میں ہم ہی لاتے ہیں، ان کو بچا کر رکھناکسی اور کا نہیں ، پڑوسیوں کا بھی نہیں، ہمارا اور صرف ہمارا فرض ہے۔ اور کچھ نہ کیجئے، کم سے کم یہ وعدہ کیجئے کہ اپنی آنکھیں کھلی رکھیں گے۔ وعدہ؟