روس نے تصدیق کی ہے کہ اس نے شام میں فضائی کارروائیوں کے لیے ایرانی ہوائی اڈے کے استعمال کا سلسلہ فی الحال بند کر دیا ہے۔ تہران میں روس کے سفیر لیون زاہگریان نے کہا ہے کہ روسی طیارے اور سازوسامان ایرانی فوجی اڈے سے ہٹا لیا گیا ہے لیکن ان کے ملک کو مستقبل میں ایرانی انفراسٹرکچر کے استعمال میں کوئی رکاوٹ نظر نہیں آتی۔ خیال رہے کہ روس کا یہ بیان ایران کے وزیرِ دفاع حسین دیگان کی جانب سے ایران کے فوجی اڈے کے استعمال کے بارے میں روس کے کھلے عام بیان پر تنقید کے بعد آیا ہے۔
حسین دیگان نے روس کے اس اقدام کو کڑی تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے اسے دکھاوا قرار دیا تھا۔ خیال رہے کہ روس اور ایران دونوں ہی شامی صدر بشار الاسد کی حکومت کے حامی ہیں لیکن ایران نے شام کے تنازع میں اپنے فوجی کردار کا کبھی کھل کر اعتراف نہیں کیا ہے۔ روسی تصدیق سے قبل پیر کو ہی ایران کی وزراتِ خارجہ کے ترجمان بہرام قاسمی کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں بتایا گیا تھا کہ روس نے فی الحال ایرانی فوجی اڈے کا استعمال بند کر دیا ہے اور اس کے طیارے وہاں سے چلے گئے ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق ایرانی وزارتِ خارجہ کے ترجمان نے تہران میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو بتایا کہ روس کی جانب سے ایرانی اڈے کا استعمال عارضی بنیادوں پر تھا اور اس کی درخواست روس کی جانب سے کی گئی تھی۔ ترجمان کا مزید کہنا تھا کہ اب یہ سلسلہ ختم ہوگیا ہے۔
خیال رہے کہ گذشتہ منگل کو روس کی وزراتِ دفاع کی جانب سے جاری کے گئے بیان میں کہا گیا تھا کہ اس نے شامی شہروں حلب، ادلب اور دیر الزور میں عسکریت پسندوں کےاڈوں کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کے مغربی فوجی اڈے کا استعمال کیا ہے۔ حکام کے مطابق دور تک ہدف کو مار کرنے والے روسی سپر سانک اور جنگی طیاروں نے شام میں ’شدت پسندوں‘ کو نشانہ بنانے کے لیے ایران کے مشرقی شہر ہمدان میں واقع ہوائی اڈے کو استعمال کیا تھا۔
یاد رہے کہ یہ پہلا موقع تھا کہ گذشتہ برس سے شام کے صدر کی حمایت میں جاری مہم کے دوران روس نے شام کے اندر حملوں کے لیے کسی تیسرے ملک کا استعمال کیا ہو۔ حال ہی میں روس نے ایران اور عراق سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ روسی کروز میزائل کو اپنی فضائی حدود سے گزرنے کی اجازت دیں تاکہ وہ شام میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنا سکیں۔