اردو دنیا میں غم کی لہر
نئی دہلی : اردو ادب کو مکان اور پلیتہ[فلیتہ] جیسے ناول دینے والے معروف افسانہ نگار اور سابق اعلی پولس افسر پیغام آفاقی نہیں رہے۔ آج صبح انہوں نے داعی اجل کو لبیک کہا وہ 61 برس کے تھے۔ پسماندگان میں اہلیہ ایک بیٹی اور ایک بیٹا ہے۔ قریبی احباب کے ذرائع کے مطابق وہ کچھ دنوں سے بہت بیمار چل رہے تھے ۔میکس ہاسپٹل شالیمار باغ دہلی کے آی سی یو میں حیات و موت کی لڑائی میں آج صبح پانچ بجے انہیں شکست ہوگئی۔ان کا جسد خاکی سیوان( بہار) لے جایا گیا ہے۔
پیٖغام آفاقی ان کا قلمی نام تھا جبکہ اصل نام اختر علی فاروقی تھا – وہ 1956 میں موضع چانپ، ضلع سیوان، بہار (انڈیا) میں پیدا یوئے۔ ابتدائی تعلیم سیوان میں اور اعلی تعلیم علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے حاصل کی جہاں انہوں نے انگریزی ادب میں بی-اے- آنرز اور تاریخ میں ایم اے کیا ۔وہ مشہور زمانہ ادیب قاضی عبدالستار و شہریار اور مورخ عرفان حبیب کے شاگرد بھی رہے ۔
یونیورسٹی کے زمانے میںانہوں نے دو ناولٹ اور چند افسانے اور کچھ نظمیں لکھیں جنہیں زبردست پذیرائی ملی اور ان کے کچھ افسانے اور نظمیں موقر رسالوں جیسے ‘آجکل ، ‘ آہنگ اور ‘تحریک وغیرہ میں شائع ہوئیں ۔ ان کی یہ ابتدائی تخلیقات اس بات کی غمازی کرتی ہیں کہ انہوں نے ترقی پسند تحریک یا جدیدیت سے متاثر ہوئے بغیر اپنے لئے نئی راہ نکالی تھی اور ان کی یہ روش آگے چل کر وہاں کے آزاد خیال نوجوانوں کے ایک کارواں میں تبدیل ہوگئی ۔
طالب علمی دور کے بعد وہ کل ہند امتحان میں شریک ہوکر پولس سروس میں آگئے اور اس کے بعد وہ بیشتر دہلی میں مقیم رہے ہیں ۔ اردو اور ہندوستان کے ادبی حلقوں میں ان کی شہرہ آفاق حیثیت ان کے ناول ‘مکان کی اشاعت سے قائم ہوئی جس کے سر اردو ناول کی تجدید نو کا سہرا جاتا ہے -پیغام آفاقی کا دوسرا ناول ‘پلیتہ 2011 میں شائع ہو ا جس کو مکان کی طرح ہی پذیرائی ملی ہے اور اسے بھی موضوع اور تکنیک دونوں اعتبار سے منفرد تسلیم کیا گیا ہے – اس کے علاوہ ان کے افسانوں کا ایک مجموعہ ‘مافیا کے نام سےبھی چھپ چکا ہے اور ان کا شعری مجموعہ ‘ درندہ کے نام سے شائع ہوچکا ہے ۔